سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(244) دو نکاحوں میں سے کون سا نکاح درست ہے؟

  • 23009
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 818

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص نے اپنی بالغہ لڑکی کی نسبت اپنے بھتیجے سے کردی، جو لڑکی سے عمر میں چھوٹا ہے۔بعد  وفات اپنے باپ کے لڑکی نے اپنا نکاح ایک دوسرے شخص سے کرلیا،جو اس کی متوفیہ بہن کا شوہر تھا،اس نکاح میں لڑکی کا ایک چچا جواس کا ماموں بھی ہے(اس طور پر کہ لڑکی کے باپ کابھائی ہے باپ کی طرف سے اور ماں کا بھائی ہے ماں کی طرف سے) شریک اور رضا مند تھا۔مگرلڑکی کے دوسرے دو چچا جن میں سے  بڑے کے لڑکے سے وہ منسوب تھی،شریک نہ تھے اور نہ رضا مند تھے اور نہ ان کے علم میں یہ نکاح ہوا۔جس  چچا کے بیٹے سے اس کا انتساب ہوا تھا،وہ سب سے بڑا چچا ہے اور حقیقی چچاہے۔بعد علم ہونے اس نکاح کے دونوں مخالف چچا نے بغیر علم واطلاع  یا  رضا مندی کے لڑکی کا نکاح اس لڑکے سے کردیا،جس سے اس کی پیشتر میں نسبت ہوئی تھی۔لڑکی اس جدید نکاح کی مخالفت اور انکار ایک ماہ تک کرتی رہی۔اس عرصہ میں اس کو حراست میں رکھاگیا اور اس کی رضا مندی کے شوہر کو آمدورفت کا موقع نہیں دیا گیا۔بعد ایک ماہ کسی وجہ سے خواہ بوجہ اس کے اس کو سخت حراست میں رکھا گیا تھا،خواہ منت وسماجت کی گئی،لڑکی نے دوسرے شوہر سے رضا مندی کا اظہار کردیا اور کہا جاتا ہے کہ خلوت بھی ہوگئی۔اس صورت میں ہر دو نکاحوں میں سے کونسا نکاح بموجب شرع شریف وحسب فقہ حنفی جائز سمجھا جائے گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس صورت میں لڑکی ہر دو نکاح کے وقت مکلفہ(عاقلہ بالغہ) تھی تو ان ہر دو نکاحوں میں سے پہلا نکاح حسب فقہ حنفی جائز سمجھا جائے گا اور دوسرا ناجائز۔پہلا نکاح جائز اس وجہ سے سمجھا جائے گا کہ حرہ مکلفہ کا نکاح،گوبلا ولی ہی کیوں نہ ہو،حسب فقہ حنفی نافذ سمجھا جاتا ہے:

"نفذ نكاح حرة مكلفة بلا ولي عند ابي حنيفة في ظاهر الرواية"

(فتاویٰ عالمگیریہ طبع مصطفائی :2/13)

"ظاہر الروایۃ میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک حرہ مکلفہ کا نکاح بغیر ولی نافذ ہوگا"

دوسرا نکاح ناجائز اس وجہ سے سمجھا جائے گا کہ جب پہلا نکاح جائز سمجھا گیا تو وہ لڑکی شوہر دار ہوگئی اور شوہر دار عورت سے کسی کا نکاح جائز نہیں ہے۔

لا يجوز للرجل ان يتزوج زوجة غيره"(فتاوی عالمگیریہ:2/9)

کسی آدمی کے لیے کسی دوسرے کی بیوی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔اور بھی جب لڑکی نے دوسرے نکاح سے اپنی ناراضی کا اظہار کردیا تو دوسرا نکاح فسخ ہوگیا اور جب فسخ ہوگیا،اس کے بعد رضا مندی کا اظہار خواہ کسی وجہ سے ہو کچھ مفید نہیں ہوسکتا:

"ولو  زوجها وليها فقالت:لا ارضيٰ ثم رضيت في المجلس لم يجز كذا في محيط السر خسي(فتاویٰ عالمگیریه:2/14)

اگر عورت کے ولی نے اس کا نکاح کردیا تو اس نے کہا:میں  راضی نہیں ہوں،پھر اسی مجلس میں وہ راضی بھی ہوجائے تو یہ نکاح جائز نہ ہوگا۔سرخسی کی محیط میں بھی ایسے ہی ہے۔

حسب حدیث شریف بھی یہی جواب ہے بشرط یہ کہ ہر دو چچا یعنی وہ چچا جس نے کہ لڑکی کا پہلا نکاح کردیا اور وہ چچا جس نے کہ لڑکی کا دوسرا نکاح کردیا،برابر کے ولی ہوں۔

"عن سمرة بن جندب -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: أيما امرأة زوَّجها وليان فهي للأول منهما، ومن باع بيعًا من رجلين فهو للأول منهما "الحدیث ترمذی [1]

سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:جب دو ولی کسی عورت کا نکاح کردیں،تو یہ ان میں سے پہلے والے کے لیے ہوگی"

کتبہ:محمد عبداللہ(11/جمادی الاولیٰ 1331ھ)


[1] ۔سنن ابی داود ر قم الحدیث(2088) سنن الترمذی رقم الحدیث(1110) سنن النسائی رقم الحدیث(4682)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:433

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ