سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(218) ولد الزنا سے شادی کرنے کا حکم

  • 22983
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 895

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عورت اپنے آپ کو صحیح النسب جان کر کہتی ہے کہ میں خاوند کے پاس نہیں جاتی میرا خاوند ولد الزنا ہے۔اگر میں خاوند کے پاس جاؤں گی تو میری اولاد بھی حرامی ہو گی اور میرا نکاح اس کے ساتھ درست نہیں اور عورت اور اس کے والدین اور غیر لوگ بھی کہتے ہیں کہ عورت صحیح النسب کا نکاح مرد ولد الزنا سے شرع شریف میں درست نہیں ہے اور ولد الزنا دوزخی ہے سو یہ کہنا عورت اور اس کے والدین اور غیر لوگوں کا صحیح ہے یا نہیں ؟موافق قرآن وحدیث و اقوال صحابہ بسند صحیح بتفصیل جواب تحریر فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورت یا اس کے والدین یا اور لوگوں کا یہ کہنا کہ عورت صحیح النسب کا نکاح مرد ولد الزنا سے شرع شریف میں درست نہیں ہے بالکل غلط ہے شرع شریف میں کہیں اس کا پتا نہیں ہے عورت مسلمہ کے نکاح کے لیے صرف اس قدر شرط ہے کہ مرد بھی مسلمان ہی ہو۔ غیر ملت کاشخص نہ ہواور یہ کہ ولد الزنا بھی نہ ہو کہیں سے یہ ثابت نہیں ہے محض بے اصل ہے اسی طرح عورت یا اس کے والدین یا اور لوگوں کا یہ کہنا کہ ولد الزنا دوزخی ہے بھی غلط ہے۔اصول شرع شریف سے یہ ہے کہ ایک شخص کے گناہ سے دوسراشخص نہیں پکڑا جا تا جو گناہ کرتا ہے وہی پکڑا جا تا ہے اس مضمون کی آیات کریمات قرآن مجید میں بہت ہیں جیسے:

﴿وَلا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزرَ أُخرىٰ...﴿١٦٤﴾... سورة الانعام

(اور نہ کوئی بوجھ اٹھانے والی کسی دوسری کا بوجھ اٹھائے گی) واللہ تعالیٰ اعلم۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:414

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ