سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(209) بلوغت سے قبل شادی کا حکم

  • 22974
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 714

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید نے اپنی لڑکی کا عقد خالد کے ساتھ بعمر نابالغی کردیا ۔یعنی لڑکا اور لڑکی کی عمر تخمیناًگیارہ سال کی تھی اور خالد کا ولی اور سرپرست سوائے اس کی والدہ کے اور کوئی نہ تھا عقد ہوجانے کے دو ماہ بعد زید کو معلوم ہوا کہ خالد کی والدہ جو خاوند کی ولی اور سرپرست ہے اور بیوہ ہے اپنے کسی قرابت دار سے ناجائز تعلق رکھتی ہے اور وہ قرابت دار اسی کے گھر میں رہتا ہے اور وہ بھی بطور مالک اور منتظم کے ہے اس کا علم ہونے کے بعد زید نے اپنی لڑکی کا اس مکان میں رہنا پسند نہ کیا کہ جس میں خلاف شرع شریف ناجائز امور ظہور میں آتے ہیں اس خیال سے اس نے خالد سے کہا کہ یا تو تم اپنی والدہ کا عقد اس قرابت دار یا کسی دوسرے شخص کے ساتھ جس کو وہ منظور کرے کردو یا خود اس سے علیحدہ ہوتو میں اپنی لڑکی کو تمھارے گھر چھوڑوں گا ورنہ ایسی ناجائز جگہ اپنی لڑکی کا رہنا پسند نہیں کرتا۔اس پر نہ اس کی والدہ نے اپنا عقد کیا اور نہ وہ اپنی والدہ سے علیحدہ ہوا بلکہ نفسانیت اور والدہ کے بہکانے کی وجہ سے ایک اور عقد کر لیا۔اب زید کی لڑکی تخمیناً چار سال سے زید کے گھر میں ہے اور خالد دوسری بی بی کے ساتھ رہتا ہے اور اسی کے نان و نفقہ کا کفیل ہے ۔ زید کی لڑکی کا بھارباپ کے سرہے۔ ایسی حالت میں زید کو کیا کرنا چاہیے؟السائل عبد الرحمٰن ۔دیدار بخش بازار سوت ہٹی ۔ متصل کوتوالی ۔فرخ آباد ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زید نے جو اپنی لڑکی کا عقد خالد کے ساتھ کردیا اگر خالد یا وہ لڑکی یا دونوں عقد کے وقت نابالغ تھے تو عقد مذکورہ دووجہ سے صحیح نہیں ہوا۔اولاً اس وجہ سے کہ نکاح کی عمر سن بلوغ ہے اور یہ نکاح سن بلوغ سے قبل ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

﴿وَابتَلُوا اليَتـٰمىٰ حَتّىٰ إِذا بَلَغُوا النِّكاحَ...﴿٦﴾... سورة النساء

 یعنی یتیم بچوں کو آزماتے رہو۔یہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمر تک پہنچیں ظاہر ہے کہ نکاح کی عمر سن بلوغ کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے۔ثانیاً اس وجہ سے کہ عورت کا نکاح اس کے اذن کے بغیر ناجائز ہے ابو ہریرہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا

عَنْ أبي هريرة رَضيَ الله عَنْهُ أنَ رَسُولَ الله صلى لله عليه وسلم قَال: «لا تُنْكَحُ الأيِّمُ حَتى تستأمر، وَلا تُنْكَحُ البِكْرُ حَتًى تُستأذَن[1](متفق علیه مشکوة شریف باب الولی والا ستیدان)

یعنی کنواری عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے اذن نہ لیا جائے اور بیوہ عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے حکم نہ لیا جائے۔

حالت نابالغی کا اذن شرعاً نامعتبر ہے۔ پس ثابت ہوا کہ عقد مذکورصحیح نہ ہوا اور جب ثابت ہوا کہ عقد مذکور صحیح نہیں ہوا تو ایسی حالت میں اس لڑکی کا دوسرا عقد کردیا جائے اپنے ضلع کے صاحب جج سے اجازت لے کر اگر وہ لڑکی سن بلوغ کو پہنچ چکی ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ: محمد عبد اللہ (23/صفر 1335ھ)


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (4843)صحیح مسلم رقم الحدیث (1419)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب النکاح ،صفحہ:401

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ