سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(182) خراجی زمین سے عشر لینا

  • 22947
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 968

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عشر خراجی زمین سے لینا جائز اور حق ہے کہ نہیں؟ازروئے قرآن وحدیث کے بطریق قوت وصحت کے جو امر ثبوت یا عدم ثبوت عشر ارض خراجی کی نسبت ہولکھیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عشر یا نصف عشر ہر ایک زمین کی پیداوار میں فرض ہے خواہ زمین خراجی ہو یا غیر خراجی۔عشر یا نصف عشر کے فرض ہونے میں زمین کا غیر خراجی ہونا شرط نہیں ہے۔

بخاری  شریف میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"فيما سقت السماء والعيون اوكان عشر يا العشر وفيما سقي بالنضح نصف العشر"[1]

"جس(کھیت یا باغ) کو بارش یا چشموں کے پانی سے سیراب کیا جائے یا اس(کھیت یا باغ) کی زمین تر ہوتو اس(کی پیداوار) میں سے عشر(فرض) ہے اور جس(کھیت یا باغ) کو کھینچ کر پانی پلایا جائے تو اس میں نصف عشر ہے۔"

اس حدیث سے ثابت ہے کہ جو کھیت یا باغ کہ مینہ یا چشمہ کے پانی سے سیراب کیا جائے یا اس کھیت یا باغ کی زمین ہی ایسی تر ہوکہ اس کی تری کافی ہوجائے،اس کی پیداوار میں عشر فرض ہے اور جس کھیت یا باغ کو پانی کھینچ کر سیراب کیاجائے،اس کی پیداوار میں نصف عشر فرض ہے۔

اس حدیث میں جو دو صورتیں مذکور ہوئی ہیں،ایک عشر کے فرض ہونے کی اور دوسری نصف عشر کے فرض ہونے کی،ان میں سے کسی صورت میں بھی یہ تخصیص نہیں ہے کہ اس کھیت یا باغ کی زمین خراجی ہو یا غیر خراجی۔پس اگر خراجی ہو تو بھی اس میں عشر یا نصف عشر فرض ہے اور غیر خراجی ہو تو بھی،اور اللہ  تعالیٰ فرماتاہے:

﴿وَمِمّا أَخرَجنا لَكُم مِنَ الأَرضِ...﴿٢٦٧﴾... سورة البقرة

"یعنی اور جو کچھ پیداوار ہم تمہارے لیے زمین سے پیدا کردیں،اس میں سے دو۔"

یہ آیت کریمہ عشرکے بارے میں نازل ہوئی ہے یہ آیت کریمہ بھی عام ہے۔اس میں بھی یہ  تخصیص نہیں ہے کہ وہ زمین خراجی ہو یا غیر خراجی۔پس اگر خراجی ہوتو بھی عشر یا نصف عشر  فرض ہے۔اور غیر خراجی ہوتو بھی۔اور بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿وَءاتوا حَقَّهُ يَومَ حَصادِهِ ...﴿١٤١﴾... سورة الانعام

یعنی جو کھیت  یا باغ کہ بار آور ہوں تو ان کے کاٹنے اور توڑنے کے دن ان کا حق ادا کرو۔

یہ آیت کریمہ بھی عشر کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور یہ بھی عام ہے،اس میں بھی تخصیص نہیں ہے کہ اس کھیت یا باغ کی زمین خراجی ہو یا غیر خراجی۔پس اگر خراجی ہوتو بھی عشر یا نصف عشر فرض ہے اور غیر خراجی ہوتو بھی،اور جو لوگ کہتے ہیں کہ خراجی زمین میں عشر فرض نہیں ہے اور اپنے اس قول پر حدیث:

"لا يجتمع عشر وخراج في ارض مسلم"[2]

"یعنی کسی مسلمان کی کسی ایک ہی زمین میں عشر اور خراج دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوتے"سے استدلال کرتے ہیں ان کا یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔

اولا:

اس وجہ سے کہ حدیث مذکور باطل اور بے اصل ہے ہرگز استدلال کے قابل نہیں ،اس لیے کہ اس کا  راوی جس پر اس حدیث کا مدار ہے،یحییٰ بن عنبسہ" ہے اور وہ سخت واہی ہے۔یہاں تک کہ ائمہ حدیث نے اس کو کذاب اور دجال اور وضاع  تک بھی فرمادیا ہے۔[3]

ثانیاً:۔

اس وجہ سے کہ عشر زمین کی پیداوار میں ہے،پس خراجی زمین کی پیداوار میں عشر کے فرض ہونے سے حدیث مذکور کی مخالفت ہرگز لازم نہیں آتی،کیونکہ جب خراج نفس زمین پر مقرر ہوتا ہے نہ کہ زمین کی پیداوار پر اورعشر زمین کی پیداوار میں  فرض ہوتا ہے،نہ کہ نفس زمین میں تو عشر وخراج دونوں کا ایک ہی زمین میں ایک ساتھ جمع ہونا لازم نہیں آیا۔واللہ تعالیٰ اعلم۔کتبہ محمد عبداللہ (22/صفر 1333ھ)


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (1412)

[2] ۔دیکھیں نصب الرایہ(3/442)

[3] ۔مصدر سابق۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الزکاۃ والصدقات ،صفحہ:357

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ