ایک مولوی صاحب نے وعظ میں بیان کیا کہ اسلام میں کفویعنی ذات پات کا کچھ خیال نہیں ۔ یہ جو شیخ سید مغل ،پٹھان جو لاہا ،چاشا ،خوشباش مشہور ہیں ان سب کا کچھ اعتبار نہیں۔ اگر دین دار و پرہیز گار ہوں۔آپس میں بیاہ شادی دے سکتے ہیں اگر سید نماز نہ پڑھے تو اس کی سیدی کیا کام آئے گی؟اس پر جولاہا لوگوں نے گرفت کیا کہ ہم لوگوں کو جولاہا کیوں کہا؟ مومن کیوں نہیں کہا؟ جولاہا بول کر گالی گلوچ اور طعن و تشنیع کیوں کیا؟صرف اسی بات پر ان مولوی صاحب کو اندازاً برس روز سے بند یعنی خارج از جماعت اور حقوق ستہ سے اور امامت سے باز رکھا ہے ۔
اب دریافت یہ ہے کہ مولوی صاحب نے جس حیثیت سے کہا ہے اس سے گالی گلوچ اور طعن و تشنیع صادق آتی ہے یا نہیں؟ اگر آتی ہے تو خارج از جماعت اور حقوق ستہ اور امامت سے معزول کرنے کے قابل ہیں یا نہیں؟اگر نہیں ہیں تو وہ لوگ گنہگار ہیں یا نہیں ؟جو سردار لوگ ایسی حرکتیں کریں اور باز نہ آئیں تو لوگ سرداری کے قابل ہیں یا نہیں؟عالم کی بے عزتی سے توبہ کی ضرورت ہے یا نہیں؟
صورت مسئولہ میں عبارت سوال کے پڑھنے سے جو امر ظاہر ہوتا ہے یہ ہے کہ مولوی صاحب نے جس حیثیت سے یہ لفظ استعمال کیاہے اس پر کسی طرح گالی گلوچ اور طعن و تشنیع صادق نہیں آتی ۔ہاں اگر کوئی شخص کسی خاص شخص یا خاص جماعت کے حق میں یہ لفظ یا کوئی اورلفظ جس کو وہ خاص جماعت اپنے حق میں ناپسند کرتی اور اس سے چڑھتی ہو استعمال کرے تو ایسے لفظ کا استعمال کرنے والے کو توبہ کرنا اور اس خاص شخص یا خاص جماعت سے معانی مانگنا لازم ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
(یعنی آپس میں کو ئی کسی کو ایسے نام سے نہ پکارے جو اس کو برالگتا ہو۔ یعنی وہ اس سے چڑھتا ہو۔
الحاصل مولوی صاحب نے جس حیثیت سے یہ لفظ استعمال کیا ہے اس سے گالی گلوچ اور طعن اور تشنیع اصلاً مفہوم نہیں ہوتی ایسی حالت میں ان لوگوں کو جنھوں نے مولوی صاحب کو بوجہ استعمال اس لفظ کے بند کیا ہے لازم ہے کہ اس کام سے باز آئیں اور مولوی صاحب کو جماعت میں داخل کرکے ان کے ساتھ اسلامی برتاؤ کریں ضد اور تعصب چھوڑ دیں اور
(اور اللہ کے بندو !بھائی بھائی بن جاؤ)کے مصداق بن جائیں ۔واللہ تعالیٰ اعلم
(کتبہ محمد عبد اللہ (20/ربیع الاول 1335ھ)
[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (5718)صحیح مسلم رقم الحدیث (2559)
ماخذ:مستند کتب فتاویٰ