سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(264) توسیع کے لیے مسجد گراکر دوسری جگہ پر مسجد تعمیر کرنا

  • 22809
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 928

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک مسجد خام ووچھوٹی سلف سے موجود تھی جس کی دیواروں کو ایک رئیس نے جو وہاں کا متولی اور نگہبان تھا بقصد تعمیر پختہ وسیع توڑ ڈالا۔اب ظاہر ہوا کہ جانب جنوب وشمال کچھ قبریں اس کی دیوار سے اس طرح لاحق ہیں کہ اگر صحن وسیع کیا جائے گا۔مطابق وسعت مسجد کے تو وہ قبریں وسط صحن میں پڑ جائیں گی اور اس کے پچھم طرف ہنود کے مکان میں کہ وہ ہرگز نہیں دے سکتے۔اگر دوسری جگہ مسجد بنائی جائے تو جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کوئی زمین ایک بار مسجد قرار پاچکی تو اب وہ ہمیشہ کے لیے مسجد ہوگئی،اس کامسجد ہونا باطل نہیں ہوسکتا۔ایسی حالت میں دوسری جگہ مسجد تو بنانا جائز نہیں ہے۔لیکن اول مسجد کی جگہ چھوڑ دینا اور اس کے مسجد ہونے سے دست بردار ہوجانا یا اس کی جگہ کوئی اور چیز بنوانا،جس سے اس جگہ کے احترام میں فرق آئے اور جُنب اور حائض وغیرھما اس میں جانے کے مجاز ہوجائیں،یہ امر بالضرور ناجائز ہے ۔مذہب احناف میں یہی مفتی بہ ہے۔فتاویٰ عالمگیری (2/547) مطبوعہ بند ہوگلی) میں ہے:

"ولو كان مسجد في مجلة ضاق علي اهله ولا يسمعهم ان يزيدوا فيه فسالهم بعض الجيران ان يجعلوا ذلك المسجد له ليدخله في داره ويعطيهم  مكانهم عوضا ما هو خير له فيسع فيه اهل المحلة قال محمد لا يسمعهم ذلك كذا في الذخيرة "

اگر ایک محلے میں مسجد ہو،جو وہاں کے رہنے والوں کے لیے تنگ ہوگئی ہے اور وہ اس میں اضافہ کرنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے تو ان سے ایک ہمسایہ کہے کہ وہ یہ مسجد اسے دے دیں تاکہ اس(جگہ) کو اپنےگھر میں شامل کرلے اور وہ اس کے بدلے میں انھیں اس سے بہتر جگہ دے دے،جو اہل محلہ کے لیے کافی ہو،امام محمد رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا ہے کہ ان کے لیے اس عمل کی گنجائش نہیں ہے۔

(صفحہ:548) میں ہے:

في وقف الخصاف اذا جعل ارضه مسجدا  وبناهوواشهد ان له  ابطاله وبيعه فهو شرط باطل ويكون مسجدا[1]

"جب ایک شخص اپنی زمین مسجد کو دے دے اور اس کو تعمیر کرے اور گواہ بنائے کہ وہ اس کوختم بھی کرسکتا اور بیچ بھی سکتاہے تو یہ شرط باطل ہے اور وہ مسجد ہی رہے گی نیز اسی صفحہ میں ہے:

واذا خرب المسجد واستغني اهله وصار بحيث لا يصلي فيه عاد ملكا لو اقفه او لورثته حتي جازلهم ان يبيعوه او بينوه دارا وقيل هو مسجد ابدا وهو الا صح كذا في خزانة المفتين في فتاوي الحجة لو صار احد المسجدين قد بما وتداعي الي الخراب فاراد اهل السكة بيع القديم وصرفه في السمجد الجديد فانه لا يجوز الخ[2]

جب مسجد ویران ہوجائے اور وہاں رہنے والے اس سے بے نیاز ہوجائیں کہ وہاں نماز بھی نہیں پڑھی جاتی اور وہاں رہنے والے اس سے بے نیاز ہوجائیں کہ وہاں نماز بھی نہیں پڑھی جاتی تو وہ اس کو وقف کرنے والے یا اس کے ورثا کی دوبارہ ملکیت بن جائے گی حتیٰ کہ ان کے لیے اسے بیچنا یا اسے  گھر بنانا جائز ہوگا،لیکن ایک قول کے مطابق وہ ہمیشہ کے لیے مسجد ہی رہے گی اور یہی زیادہ صحیح ہے جیسا کہ"خزانة المفتين"میں ہے۔فتاویٰ الحجہ میں ہے کہ اگر دو مسجدوں میں ایک بہت پرانی ہوجائے اور ویرانی کا شکار ہوجائے تومحلے والے چاہیں کہ پرانی کو بیچ کراس(کی آمدنی) کو نئی مسجد میں صرف کردیں تو یہ جائز نہیں ہے۔


[1] ۔الفتاویٰ الھندیہ(2/457)

[2] ۔الفتاویٰ الھندیہ(2/458)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ