سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(338) حدیث: وستفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقةکی صحت

  • 22786
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1070

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حدیث : وستفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقةدرجات احادیث میں کونسا درجہ رکھتی ہے؟یہ حدیث موضوع ہے۔؟

مَا أَنَا عَلَيْهِ الْيَوْمَ وَأَصْحَابِي

اسی کا ٹکڑا ہے یا کہیں دوسری جگہ میں آیا ہے؟ مولوی شبلی نے "سیرۃ النعمان "میں اس کو موضوع لکھا ہے۔( سیرۃ النعمان از مولانا شبلی نعمانی (ص132)مفید عام اگرہ۔) کیا یہ بالکل صحیح ہے؟بینوا توجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث: وستفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقةکو ترمذی نے اپنی سنن کی کتاب الایمان میں ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  و عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مع سند روایت کیا ہے۔[1]

اول حدیث کی نسبت یہ عبارت تحریر فرمائی ہے۔"حدیث ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  حسن صحیح "اور ثانی کی نسبت یہ لکھا ہے"ہذا حدیث حسن غریب"

ثانی کی سند میں ایک راوی عبد الرحمٰن بن زیاد بن انعم افریقی ہیں جو کسی قدر ضعیف ہیں لیکن  نہ اس وجہ سے کہ فاقد صلاح و تقوی کے تھے بلکہ ان کے ضعف کی اور وجہ ہے جس سے ان کی حدیث درجہ حسن سے نازل نہیں ہو سکتی۔[2]لہٰذا ترمذی نے اس حدیث کی تحسین کی اور فی الواقع ترمذی کی یہ تحسین قابل تحسین ہےاول کی سند ہر طرح درست ہے کہیں اس میں کوئی کھونٹ نہیں ہے۔ لہٰذا ترمذی نے اس کی تصحیح کی اور اس تصحیح میں بھی ترمذی حق بجانب ہیں ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ اس مضمون کی حدیث اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے بھی مروی ہے چنانچہ فرمایا :

وفي الباب عن سعد وعوف بن مالك مجھ کو آئمہ حدیث میں سے باوجود (؟)اب تک کوئی ایسا نہیں ملا جس نے اس حدیث کی تصنیف کی ہو۔

فضلا عن نسبة الوضع اليه(چہ جائے کہ اس کی طرف وضع کی نسبت کی ہو)

مَا أَنَا عَلَيْهِ الْيَوْمَ وَأَصْحَابِي(جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں )ثانی حدیث کا ٹکڑا ہے[3] ہاں ایک حدیث اور ہے جس کو عقیلی اور داقطنی نے انس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کیا ہے وہ یہ ہے۔

تفترق امتي علي سبعين اواحدي وسبعين فرقة[4](میری امت ستریا اکہتر فرقوں میں بٹ جائے گی )یا(تفترق امتي علي بضع وسبعين فرقة)[5](میری امت ستر سے کچھ اوپر فرقوں میں منقسم ہوجائے گی)

اس حدیث کو ضرور آئمہ حدیث نے ضعیف یا بےاصل یا موضوع قراردیا ہے اس کی زیادہ تفصیل"اللالی المصنوعۃ"(ص188) و دیگر کتب موضوعات میں ملے گی۔ شاید مولف"سیرۃالنعمان "کو ایک حدیث کا دوسری حدیث سے اشتباہ ہو گیا ہو۔ جو ایک صحیح حدیث کو موضوع کہہ دینے کا سبب ہو گیا اور یہ کچھ عجیب بات نہیں ہے۔(واللہ اعلم بالصواب)


[1] ۔سنن الترمذی رقم الحدیث (2641۔2640۔

[2] ۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ضعیف فی حفظہ وکان رجلا صالحا "(تقریب التہذیب ص340)

[3] ۔سنن الترمذی رقم الحدیث (2641)

[4] ۔الضعفاء للعقیلی(201/4)لسان المیزان (56/6)

[5] ۔ الضعفاء للعقیلی(201/4) تفصیل کے لیے دیکھیں : السلسلۃالضعیفۃ،رقم الحدیث (1035)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ