سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(3) جنبی پر کون سی چیزیں حرام ہیں

  • 22765
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 4494

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جنبی پر کون سی چیزیں حرام ہیں


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اب ہم ان اعمال کا تذکرہ کریں گے جو کسی مسلمان پر اس وقت تک حرام ہوتے ہیں جب تک کہ وہ پاک صاف نہ ہو جائے کیونکہ وہ اعمال تقدس اور شرف کے حامل ہیں۔ ہم ان اعمال کی وضاحت دلائل کے ساتھ کریں گے تاکہ آپ انھیں ملحوظ رکھیں اور طہارت مطلوبہ حاصل ہونے پر ہی انھیں ادا کریں ۔ سب سے پہلے ان اعمال کا تذکرہ کرنا مناسب ہے جنھیں حدث اصغر دونوں حالتوں میں کرنا حرام ہے۔"[1]

قرآن مجید کو چھونا: کوئی ناپاک شخص قرآن مجید کو غلاف وغیرہ کے بغیر ہاتھ نہ لائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"لا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ"

"قرآن کو صرف پاک لوگ (فرشتے ) ہی چھوتے ہیں۔"[2]

اس آیت میں طہارت سے مراد ہر قسم کی نجاست کو دور کرنا ہے۔ یہ نقطہ نظر ان حضرات کا ہے جو(الْمُطَهَّرُونَ) سے مراد انسان لیتے ہیں۔ جبکہ بعض اہل علم کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد صرف معزز فرشتے ہیں۔

اگر یہاں آیت میں(الْمُطَهَّرُونَ) سے مراد فرشتے ہوں تو اشارۃ العص کے ساتھ انسان بھی اس میں شامل ہیں۔ اس موقف کی تائید و تصدیق اس خط سے بھی ہوتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عمرو بن حزم  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی طرف لکھا تھا اس میں یہ کلمات درج تھے۔

" لا يمس القرآن إلا طاهر "

"قرآن کو صرف پاک شخص ہی چھوئے۔"[3]

واضح رہے کہ اس خط میں آپ کے مخاطب انسان ہی تھے۔

حافظ ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"یہ حدیث متواتر کے مشابہ ہے کیونکہ علماء نے اسے قبول کیا ہے۔"[4]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  کی رائے بھی یہی ہے کہ طہارت حاصل کیے بغیر قرآن مجید کو چھونا نہیں چاہیے اور انھوں نے اسے آئمہ اربعہ کا مسلک قرار دیا ہے۔"[5]

ابن ہبیرہ رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی گراں مایہ تصنیف "الافصاح"میں لکھا ہے:"اس امر پر اربعہ کا اجماع ہے کہ طہارت کے بغیر قرآن مجید چھونا جائز نہیں۔"

اگر قرآن مجید غلاف میں لپٹا ہوا ہو یا کسی ڈبیہ میں بند ہو تو اس حالت میں اسے اٹھانے میں کوئی حرج نہیں البتہ اسے براہ راست ہاتھ نہ لگایا جائے ۔اسی طرح قرآن مجید کو دیکھنا یا ہاتھ لگائے بغیر کسی قلم یا لکڑی سے اس کی ورق گردانی کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

ایسا ناپاک شخص جو طہارت حاصل کر سکتا ہو۔ اس کے لیے فرض یا نفل نماز پڑھنا ممنوع ہے۔ اس پر علمائے امت کا اجماع ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا قُمتُم إِلَى الصَّلو‌ٰةِ فَاغسِلوا وُجوهَكُم وَأَيدِيَكُم إِلَى المَرافِقِ وَامسَحوا بِرُءوسِكُم وَأَرجُلَكُم إِلَى الكَعبَينِ وَإِن كُنتُم جُنُبًا فَاطَّهَّروا... ﴿٦﴾... سورة المائدة

"اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو۔ اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو غسل کر لو۔"[6] 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لايقبلُ الله صلاةً بغير طُهور"

"اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر نماز قبول نہیں کرتا۔"[7]

ایک دوسری روایت میں ہے:

"لاَ تُقْبَلُ صَلاَةُ أَحَدِكُمْ، إِذَا أَحْدَثَ حَتَّى يَتَوَضَّأَ"

"اللہ تعالیٰ تم میں سے ناپاک شخص کی نماز قبول نہیں کرتا جب تک وہ وضو نہ کر لے۔"[8]

کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ پانی کے استعمال کی قدرت کے باوجود طہارت حاصل کیے بغیر نماز ادا کرےاگر اس نے ایسا کیا تو اس کی نماز صحیح نہ ہوگی وہ جاہل ہو یا عالم بھول کر کرے یا قصداًاگر کسی نے مسئلہ معلوم ہونے کے باوجود جان بوجھ کر بغیر طہارت نماز ادا کی تو وہ گناہ گار ہوگا اور سزا کا بھی مستحق ہوگا۔ اور کسی کو یہ مسئلہ معلوم نہ ہو یا اس نے بھول کر نماز پڑھ لی تو وہ گناہ گار نہ ہوگا ۔ لیکن اس کی نماز درست نہ ہوگی ۔(اس کے لیے طہارت حاصل کر کے دوبارہ نماز ادا کرنی ضروری ہوگی۔)

بیت اللہ کا طواف کرنا ناپاک شخص پرحرام ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

"الطواف بالبيت صلاة إلا أن الله أباح فيه الكلام"

بیت اللہ کا طواف نماز کی طرح ہے البتہ اللہ تعالیٰ نے اس میں کلام کی اجازت دی ہے۔"[9]

علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے طواف کعبہ کے لیے وضو کا اہتمام فرمایا: نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حائضہ عورت کو بیت اللہ کے طواف سے منع فرما دیا ہے۔ یہ تمام نصوص اس مسئلہ کی وضاحت کرتی ہیں کہ ناپاک شخص کے لیے بیت اللہ کا طواف کرنا حرام ہے۔

حدث اکبر کی حالت میں بیت اللہ کے طواف کی حرمت سے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد یوں ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَقرَبُوا الصَّلو‌ٰةَ وَأَنتُم سُكـٰرىٰ حَتّىٰ تَعلَموا ما تَقولونَ وَلا جُنُبًا إِلّا عابِرى سَبيلٍ حَتّىٰ تَغتَسِلوا...﴿٤٣﴾... سورة النساء

"اے ایمان والو!جب تم نشے میں مست ہوتو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ یہاں تک کہ تم اپنی بات کو سمجھنے لگواور جنابت کی حالت میں یہاں تک کہ غسل کر لو۔ ہاں اگر راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے۔"[10]

اس آیت کی روسے مسجد میں ٹھہرنے کے لیے داخل ہونا منع ہے تو طواف کرنا بالا اولیٰ  منع ہوا۔

یہ وہ کام ہیں جو حدث اصغر دونوں حالتوں میں حرام ہیں ذیل میں ان امور کا ذکر کیا جاتا ہے۔جنھیں حدث اکبر کی حالت میں کرنا حرام ہے:

حدث اکبر کی حالت میں قرآن مجید کی تلاوت کرنا منع ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے:

"وَلَمْ يَكُنْ يَحْجُبُهُ عَنْ الْقُرْآنِ شَيْءٌ لَيْسَ الْجَنَابَةَ"

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو قرآن کی تلاوت سے سوائے جنابت کے کوئی چیز نہ روکتی تھی۔"[11]

جامع ترمذی کی روایت ہے۔

" يُقْرِئُنَا الْقُرْآنَ عَلَى كُلِّ حَالٍ مَا لَمْ يَكُنْ جُنُبًا..."

"جنابت کی حالت کے سوا آپ ہمیں ہر حال میں قرآن مجید پڑھاتے تھے۔"[12]

یہ روایات اس بات کی دلیل ہیں کہ جنبی شخص کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کرنا حرام ہے۔ حائضہ اور نفاس والی عورت کا بھی یہی حکم ہے۔[13]

البتہ بعض علماء مثلاً:ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ نے حائضہ کو قرآن مجید کی تلاوت کی اس وقت اجازت دی ہے جب اسے قرآن کے کسی حصے کے بھول جانے کا اندیشہ ہو۔

اگر کوئی جنبی شخص قرآن مجید کے معنی و مفہوم اور توضیح و تشریح سے متعلق گفتگو کر لے یا قرآن مجید کی تلاوت کا ارادہ نہ ہو بلکہ محض ذکر کے طور پر قرآنی تلاوت پڑھ لے مثلاً: "بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ" یا "الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ" وغیرہ تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی ہے:

" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَذْكُرُ اللَّهَ عَلَى كُلِّ أَحْيَانِهِ "

"نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ہر حال میں اللہ کا ذکر کرتے تھے۔"[14]

حیض و نفاس والی کے لیے وضو کے بعد بھی مسجد میں ٹھہرنا جائز نہیں۔

اگر کوئی شخص جنبی ہو یا کوئی عورت حیض و نفاس کے ایام میں ہو تو اس کے لیے بغیر وضو مسجد میں ٹھہرنا حرام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَقرَبُوا الصَّلو‌ٰةَ وَأَنتُم سُكـٰرىٰ حَتّىٰ تَعلَموا ما تَقولونَ وَلا جُنُبًا إِلّا عابِرى سَبيلٍ حَتّىٰ تَغتَسِلوا...﴿٤٣﴾... سورة النساء

"اے ایمان والو!جب تم نشے میں مست ہوتو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ یہاں تک کہ تم اپنی بات کو سمجھنے لگواور جنابت کی حالت میں یہاں تک کہ غسل کر لو۔ ہاں اگر راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے۔"[15]

 نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"لا أحل المسجد لحائض ولا لجنب"

"میں حائضہ اور جنبی کو مسجد میں رہنے کی اجازت نہیں دیتا ۔"[16]

جب جنبی وضو کر لےتب وہ مسجد میں ٹھہر سکتا ہے حضرت عطاء رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اصحاب کو دیکھا وہ جنابت کی حالت میں ہوتے تو وضو کر کے مسجد میں بیٹھ جایا کرتے تھے۔"[17]

وضوکرنے میں حکمت یہ ہے کہ اس سے جنابت میں تخفیف ہو جاتی ہے۔

جنبی شخص مسجد میں سے گزر سکتا ہے بیٹھ نہیں سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد (إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ) میں نہی سے یہ استثناء اباحت کی دلیل ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان "لا أحل المسجد لحائض ولا لجنب" میں موجود عموم کے لیے مخصص بھی ہے۔ عیدگاہ کا بھی یہی حکم ہے۔ یعنی جنبی شخص بغیر وضو کے وہاں نہ ٹھہرےالبتہ وہاں سے گزر سکتا ہے کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

" يعتزل الحيض المصلى "

"حیض والی عورتیں جائےنماز سے الگ رہیں۔"[18]


[1]۔حدث اکبر سے مراد ایسی نجاست ہے جسے زائل کرنے کے لیے غسل کرنا پڑے مثلاً:جنابت اور حدث اصغر سے مراد ایسی نجاست ہے جو صرف وضو کرنے سے ختم ہو جائے مثلاً: ہوا کا نکلنا یا مذی کا آنا وغیرہ ۔ حدث اصغر کی حالت میں قرآن مجید کو چھونا یا پڑھنا جائز ہے تحریم کی کوئی دلیل نہیں۔ البتہ وضو کر کے قرآن پڑھنا  افضل ہے۔(صارم)

[2]۔الوقعۃ :56۔79۔

[3]۔سنن الدارقطنی 1/120۔حدیث 429۔والسنن الکبری للبیہقی 1/88وسنن الدارمی 2/112۔حدیث 2263۔

[4]۔تحفۃ الاحوذی1/403۔وعون المعبود 1/264۔وفتح المالک بتویب التمہید لا بن عبدالبر علی الموطا للامام مالک 4/90۔

[5]۔مجموع الفتاوہ الشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ 21/266۔

[6]۔المائدہ: 5/6۔

[7]۔صحیح مسلم الطہارۃ باب وجوب الطہارۃ للصلاۃ حدیث 225 وسنن ابی داؤد الطہارۃ باب فرض الوضوء حدیث 60واللفظ لہ۔

[8]۔صحیح مسلم الطہارۃ باب وجوب الطہارۃ للصلاۃ حدیث 225 وسنن ابی داؤد الطہارۃ باب فرض الوضوء حدیث 60واللفظ لہ۔

[9]۔المستدرک للحاکم:1/459۔حدیث 1686۔ترمذی الحج باب ماجاء فی الکلام فی الطواف حدیث 960۔وصحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان 9/143۔144حدیث 36۔38۔ وصحیح ابن خزیمہ4/222۔حدیث 2739۔

[10]۔النساء:4/43۔

[11]۔سنن النسائی الطہارۃ باب حجب الجنب من قراء القرآن حدیث 266۔وسنن ابی داؤد الطہارۃ باب فی الجنب بقراالقرآن حدیث 229۔وسنن ابن ماجہ الطہارۃ وسننھا باب ماجاء فی قراء القرآن علی غیرطہارۃ حدیث 594ومسند احمد 1/84۔

[12]۔جامع الترمذی الطہارۃ باب ماجاء فی الرجل بقراء القرآن علی کل مالم یکن جنباء حدیث 146۔

[13]۔حائضہ اور نفاس والی کوجنب پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے جنابت کا ازالہ اختیاری ہے جبکہ حیض و نفاس کا ازالہ اختیاری نہیں لہٰذا حائضہ و نفاس والی قرآن مجید کی تلاوت کر سکتی ہے۔(ع۔د)

[14]۔صحیح البخاری الاذان باب ھل یتبع الموذن فاہ ھاھنا وھاھنا؟ قبل الحدیث634۔معلقاًوصحیح مسلم الحیض باب ذکر اللہ تعالیٰ فی حال الجنابۃ وغیرہا حدیث 373۔

[15]۔النساء:4/43۔

[16]۔(ضعیف) سنن ابی داؤد الطہارۃ باب فی الجنب یدخل المسجد حدیث232وصحیح ابن خزیمہ2/284۔حدیث1327۔ورواء الغلیل 1/210۔حدیث 193۔وصححہ الشیخ زبیر علی زئی۔

[17]۔عون المعبود1/269۔

[18]۔صحیح البخاری العیدین باب اذا لم یکن لہا جلباب فی العیدحدیث980۔وصحیح مسلم صلاۃ العیدین باب ذکر ایاحۃ خروج النساء فی العیدین الی المصلیٰ حدیث 890۔وسنن النسائی صلاۃ العیدین باب خروج العواتق و ذوات الخدورفی العیدین حدیث 1559۔واللفظ لہ۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

جلد 01: صفحہ 29

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ