سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(279) دو یا تین نابالغ بچوں کی وفات پر جہنم سے آزادی

  • 22712
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 3127

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کوئی ایسی حدیث ہے اگر کسی کے دو یا تین نابالغ بچے فوت ہو جائیں تو اللہ ان کے والدین کو جنت میں جگہ دے گا؟ برائے مہربانی صحیح رہنمائی کریں۔ (ابو حنظلہ، گجرات)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

والدین کو اگر اپنی نابالغ اولاد کی موت کا صدمہ برداشت کرنا پڑے تو ایسے والدین کو اس صدمے کا اجر ملتا ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

"جب کسی مسلمان کے تین نابالغ بچے فوت ہو جائیں تو اللہ ان بچوں پر رحم کی وجہ سے ایسے مسلمان کو جنت میں داخل کر دے گا"۔(صحیح البخاری کتاب الجنائز)

ایک خاتون بچہ لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہو کر کہنے لگی:

"یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بچے کے لئے دعا فرمائیں کیونکہ میں اس سے قبل تین بچوں کو دفنا چکی ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: "تب تو تم نے جہنم سے ایک بہت محفوظ باڑ بنا لی ہے"۔ (صحیح مسلم)

اگر کسی مسلمان کے دو بچے بھی فوت ہو جائیں تو وہ بھی اپنے والدین کے لئے ذریعہ نجات بن سکتے ہیں، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار خواتین سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

"تم میں سے جس کے تین بچے فوت ہو جائیں وہ (قیامت کے دن) جہنم سے رکاوٹ کا ذریعہ بن جائیں گے"۔ ایک عورت نے پوچھا "اگر کسی کے دو بچے فوت ہو جائیں تو کیا حکم ہے" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں دو بچے بھی جہنم سے رکاوٹ بن جائیں گے"۔(صحیح البخاری کتاب الجنائز، صحیح مسلم)

مذکورہ بالا احادیث صحیحہ صریحہ سے معلوم ہوا کہ مسلمان آدمی کو اگر اپنے تین یا دو نابالغ بچوں کا صدمہ برداشت کرنا پڑے تو اس اندوہناک اور غمناک حادثہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کو اجر سے نوازے گا اور یہ بچے ان کے لئے جہنم سے بچنے کا ذریعہ بن جائیں گے اور اس واقعہ پر اللہ تعالیٰ انہیں جنت نصیب کرے گا۔ مومن آدمی کا معاملہ اللہ کے ساتھ بہت پیارا ہے یہ مصیبت آنے پر صبر سے کام لیتا ہے اور خوشی آنے پر شکر کرتا ہے اور صبر و شکر دونوں اس کے حق میں اللہ کی عظیم نعمتیں ہیں لہذا مسلم آدمی کو ہر مصیبت پر صابر اور ہر خوشی و مسرت پر شاکر رہنا چاہیے اور ہر دو صورتوں میں اس کے لئے اجر ہی اجر ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الادب،صفحہ:373

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ