سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(273) لوطی کہلوانے کا حکم اور عقل قوم لوط کی سزا

  • 22706
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1853

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جو شخص قوم لوط والا عمل کر بیٹھے اس کی سزا کیا ہے کیا اس کی معافی ہو سکتی ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن حکیم میں قوم لوط کے اس عمل کو فحش قرار دیا ہے ارشاد گرامی ہے:

﴿وَلوطًا إِذ قالَ لِقَومِهِ أَتَأتونَ الفـٰحِشَةَ وَأَنتُم تُبصِرونَ ﴿٥٤﴾... سورة النمل

"اور لوط علیہ السلام نے جب اپنی قوم سے کہا کیا تم فحاشی کو آتے ہو اور تم دیکھتے ہو۔"

اسی طرح سورۃ عنکبوت آیت نمبر 28 میں بھی موجود ہے۔ اللہ نے زنا کو بھی فاحشہ ہی قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلا تَقرَبُوا الزِّنىٰ إِنَّهُ كانَ فـٰحِشَةً وَساءَ سَبيلًا ﴿٣٢﴾... سورة الإسراء

"زنا کے قریب نہ جاؤ یہ فحاشی ہے۔"

معلوم ہوتا ہے کہ عمل قوم لوط انتہائی برا اور گندا فعل ہے جسے قرآن حکیم میں فحاشی سے تعبیر کیا گیا ہے اس کی سزا حدیث میں قتل کی وارد ہوئی ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے تم قوم لوط والا عمل کرتے ہوئے پاؤ تو کرنے والے اور کروانے والے دونوں کو قتل کر دو۔(ابوداؤد 4462، ابن الجارود 820، حاکم 4: 300)

اس حدیث کو حاکم، ذہبی، ابن الجارود، ضیاء مقدسی، سیوطی اور علامہ البانی وغیرھم نے صحیح قرار دیا ہے (دیکھیں ارواء الغلیل 2350، الحادی فی الفتاویٰ 2/110،115۔ ابن ابی شیبہ اور ہیثم بن خلف الدوری کی کتاب "ذم اللواط" 82،48) میں ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ لواطت کرنے والے کی حد کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا دیہات میں اونچی عمارت دیکھی جائے اور اس کے اوپر سے اوندھا گرا دیا جائے پھر اس پر پتھر برسائے جائیں۔ امام ابن القصار اور امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہما نے فرمایا ہے "لواطت کرنے والے کے قتل پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے صرف اس کے قتل کی کیفیت میں اختلاف ہے" زاد المعاد 5: 40،41 اور حدیث رسول کا بھی یہی تقاضا ہے کہ اسے قتل کیا جائے۔ سید ابو محمد بدیع الدین الراشدی رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث پر مفصل مقالہ بنام " القنديل المشعول لتحقيق حديث اقتلوا الفاعل والمفعول " موجود ہے۔ ان دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ باجماع صحابہ ایسا آدمی واجب القتل ہے البتہ عدالت میں مقدمہ پہنچنے سے پہلے اس کے عیب پر اگر پردہ ڈال دیا گیا ہے تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اگر وہ سچے دل سے توبہ کر لیتا ہے تو معافی ہو سکتی ہے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اکثر لوگ ایسا عمل کرنے والے کو لوطی کہہ دیتے ہیں اور اس غلطی میں خواص و عوام گرفتار ہیں۔

اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس کام کو عمل قوم لوط کہیں یا پھر اس بستی کی طرف نسب کریں جس میں یہ فعل واقع ہوتا تھا یعنی اسے سدومی کہہ دیں لوط علیہ السلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ امید ہے کہ قارئین اس بات کا ضرور لحاظ رکھیں گے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الحدود،صفحہ:360

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ