سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(261) ایک چیز کی نقد اور ادھار میں علیحدہ علیحدہ قیمت مقرر کرنا

  • 22694
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1815

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی آدمی ایک چیز 100 روپے میں دیتا ہے اور اگر اس سے ادھار مانگ لیا جائے دکاندار وہی چیز 120 روپے میں دیتا ہے کیا ایسا کاروبار اسلام کی روشنی جائز ہے؟

(2) اگر کسی دکاندار سے کوئی چیز لی جائے اور وہ دکاندار اگر ایک مہینے کے لئے گاہک کو ادھار دیتا ہے تو مثال کے طور پر پانچ روپے زائد لیتا ہے اور اگر مہینہ گزر جائے تو گاہک وہ رقم واپس نہ کرے تو وہ مزید پانچ روپے ساتھ اضافہ کر دیتا ہے اور رقم کی ادائیگی نہ ہونے تک اسی طرح اضافہ کرتا رہتا ہے ایسا کاروبار کرنے والے گاہک اور دکاندار کے بارے میں کیا حکم ہے؟(محمد حسنین کیشئیر خطیب الرحمان مسلم کمرشل بینک لیمٹڈ جی ٹی روڈ گوجرانوالہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اشیاء کی خرید و فروخت میں ادھار کی صورت میں جو ساتھ رقم بڑھا دی جاتی ہے یہ سود ہے خواہ صرف ایک بار بڑھائی جائے یا ہر ماہ گزرنے پر اضافہ کیا جائے۔ یہ ناجائز و حرام ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(من باع بيعتين فى بيعة فله اوكسها او الربا)(ابن ابی شیبہ، ابوداؤد، ابن حبان)

جو شخص کسی چیز کی دو قیمتیں مقرر کرے گا یا تو وہ کم قیمت لے گا یا پھر وہ سود لے گا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک عقد میں دو معاملے کرنا سود ہے (اور ایک عقد میں دو معاملے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ) ایک آدمی کہے اگر تم نقد لو گے تو اتنے میں اور اگر ادھار لو گے تو اتنے میں اسی طرح ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہا ایک سودے میں دو معاملے کرنا حلال نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کے دونوں گواہوں اور لکھنے والے پر لعنت کی ہے۔(ابن حبان 8/242)

مذکورہ بالا دلائل سے معلوم ہوا کہ ادھار کی صورت میں رقم بڑھانا سود ہے لہذا ایسا کاروبار کرنا درست نہیں یہ سود لینا اور دینا ہے اور لعنت کا حق دار بننے کے مترادف ہے لہذا دکاندار اور گاہک کو ایسے معاملات سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب البیوع،صفحہ:345

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ