سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(256) دورانِ حیض طلاق دینا

  • 22689
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 631

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا دوران حیض دی گئی طلاق واقع ہوتی ہے یا نہیں قرآن و سنت کی رو سے واضح فرمائیں۔ (محمد رفیق مغل ڈھوک الٰہی بخش عمر روڈ راولپنڈی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن و سنت کی رو سے دوران حیض دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر جمہور آئمہ محدثین رحمہم اللہ اجمعین کا یہی موقف ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ کو طلاق دے دی اور وہ حالت حیض میں تھی عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا:

(مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا)

اسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کر لے پھر اسی حالت میں رکھے یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائے، پھر حائضہ ہو پھر پاک ہو جائے پھر اگر چاہے تو اس کے بعد روک لے اور اگر چاہے تو چھونے سے پہلے طلاق دے ڈالے یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ (صحیح البخاری (52018) صحیح مسلم)

جمہور ائمہ محدثین کے ہاں محل استدلال اس حدیث میں " مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا " کے الفاظ ہیں کہ آپ نے رجوع کا حکم دیا اور رجوع تبھی ہوتا ہے جب طلاق شمار کی گئی ہو چونکہ رجوع کا شرعی معنی یہی ہے۔ شرعی معنی کو لغوی معنی پر مقدم کیا جاتا ہے اسی طرح نافع ابن عمر رضی اللہ عنہ کے غلام تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ "ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ کو طلاق دی اور وہ حائضہ تھی تو عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے یہ بات بیان کی تو آپ نے اسے ایک طلاق قرار دیا۔"(مسند طیالسی 67، دارقطنی 3867، بیہقی 7/426، فتح الباری 9/303)

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں "یہ حدیث حائضہ عورت کی طلاق میں جو اختلاف ہے اس پر نص ہے اس کی طرف لوٹنا واجب ہے"۔ اسی طرح ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ان کے بیٹے سالم (نسائی 3391، مسند احمد 6141، مسلم 1471) یونس بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ (صحیح البخاری 5252 صحیح مسلم 11/130) سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ (صحیح البخاری 5253، تغلیق التعلیق 4/434) عامر شعبی رحمۃ اللہ علیہ (بیہقی 7/326، دارقطنی 3873) نے طلاق کے واقع ہونے کا ذکر کیا ہے۔ گویا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے چھ ثقہ راویوں نے طلاق کے واقع ہونے کا ذکر کیا ہے صرف ابوداؤد وغیرہ میں ابو الزبیر کی روایت میں " لم يرها شيئاً " کے الفاظ موجود ہیں جو کہ طلاق کے عدم وقوع میں صریح نہیں ہیں امام شافعی، امام خطابی وغیرھما کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے درست طریقہ نہیں سمجھا۔ درست یہ تھا کہ حالت طہر جس میں جماع نہ کیا ہو اس میں طلاق دیتے یہ مطلب نہیں کہ اسے طلاق شمار نہ کیا کیونکہ چھ ثقہ راویوں کی روایت میں طلاق کے واقع ہونے کی صراحت ہے لہذا یہی بات صحیح اور درست ہے ایک تو اس کے راوی کثیر اور واثق ہیں۔ دوسرے نمبر پر اس میں طلاق کے واقع ہونے کی صراحت ہے جبکہ دوسری جانب صرف ابو الزبیر کی روایت ہے اور وہ بھی واضح نہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الطلاق،صفحہ:337

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ