سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(221) حج کی کون سی قسم افضل ہے

  • 22654
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 4349

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے لئے حج کی کون سی قسم افضل ہو گی جبکہ ہم نے ابھی سے قربانی کے جانور کے لئے رقم اپنے وکیل کو جمع کرا دی ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حج کی تین قسمیں ہیں پہلے ان کی معرفت اچھی طرح سمجھ لیں تاکہ آپ نے کون سا حج کا طریقہ اختیار کرنا ہے۔

1۔ حج تمتع:۔ حج تمتع یہ ہے کہ میقات سے صرف عمرہ کا احرام باندھیں لبيك اللهم عمرة کہیں پھر تلبیہ کہتے جائیں مکہ پہنچ کر بیت اللہ کا  طواف کریں۔ مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت پڑھیں اس کے بعد صفا و مروہ کی سعی کریں بال کٹوائیں اور احرام کھول دیں اور عام حالت کے مطابق زندگی بسر کریں اور اب احرام کی پابندیوں سے آزاد ہیں پھر آٹھ ذوالحج کو حج کا احرام باندھیں اور مناسک حج ادا کریں۔

2۔ حج قران:۔ اس صورت حال میں میقات سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھیں مکہ پہنچ کر عمرہ کریں لیکن احرام نہیں کھولیں گے اور نہ ہی احرام کی پابندیوں سے آزاد ہوں گے بلکہ حالت احرام میں ہی رہیں گے اور اسی حالت میں 8 ذوالحج کو منیٰ چلے جائیں اور احکام حج ادا کریں

3۔ حج مفرد:۔ اس صورت میں صرف منیٰ سے حج کی نیت کر کے احرام باندھیں طواف قدوم اور سعی کریں مگر احرام نہ کھولیں بلکہ اسی طرح منیٰ چلے جائیں اور تمام مناسک پورے کر کے احرام کھول دیں۔ یہ حج کی تینوں اقسام بالاتفاق صحیح ہیں اب اختلاف یہ ہے کہ ان میں سے افضل قسم کون سی ہے بعض نے حج قران کو افضل قرار دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حج کیا تھا اور بعض نے تمتع کو افضل قرار دیا۔ کیونکہ آپ نے اس کی تمنا کی تھی بعض نے کہا اگر قربانی لے کر جا رہا ہو تو حج قران افضل ہے اور اگر قربانی لے کر نہ گیا ہو تو تمتع افضل ہے۔

ہمارے نزدیک صحیح دلائل کی رو سے حج تمتع افضل ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ حج قران کیا تھا مگر اس پر افسوس کا اظہار کیا تھا اور فرمایا تھا جو بات مجھے بعد میں معلوم ہوئی ہے وہ اگر پہلے معلوم ہو جاتی تو اپنے ساتھ قربانی نہ لاتا۔ (صحیح البخاری 7229 ابوداؤد 1784)

نیز جن صحابہ کرام کے پاس قربانی کے جانور بھی نہ تھے اور انہوں نے حج قران کی نیت سے احرام باندھے ہوئے تھے آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ عمرہ کر کے احرام کھول دیں اور قران کی نیت ختم کر کے تمتع کر لیں جیسا کہ صحیح مسلم 8/68 اور بیہقی 4/338 میں موجود ہے۔

اور جنہوں نے آپ کے اس حکم کو مشورہ سمجھا اور احرام نہ کھولا آپ نے ان پر شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا جیسا کہ (صحیح مسلم 8/654،155 ابن خزیمہ 2606 بیہقی 5/19 مسند احمد 6/175) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں موجود ہے۔ لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حج تمتع کی تمنا کرنا اور جن صحابہ کے پاس قربانیاں نہ تھیں انہیں عمرہ کر کے احرام کھولنے کا حکم دینا اس بات کی دلیل ہے کہ حج تمتع افضل ہے اور یہی کثیر اہل علم کا موقف ہے جیسا کہ (نیل الاوطار 4/301،1314 الفتح الربانی 11/90-99 وغیرہ میں مرقوم ہے)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الحج،صفحہ:274

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ