سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(137) خطبہ جمعہ کا اہتمام

  • 22570
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 662

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کسی مسجد میں خطبہ جمعہ شروع کرنے کی کوئی شرائط ہیں۔ کیا کسی حدیث میں تصریح ہے کہ کتنی بڑی بستی اور کتنی تعداد میں لوگ موجود ہوں تو خطبہ جمعہ کا اہتمام کیا جائے۔ (تجمل حسین شوکت، اعوان آباد بالمقابل چونگی میانوالی تلہ گنگ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جمعہ کی نماز ہر مسلمان پر فرض عین ہے سوائے چار اشخاص کے غلام، عورت، بچہ، مریض۔ (ابوداؤد، مستدرک حاکم)

اس کی فرضیت نص قطعی سے ثابت ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

"اے ایمان والو! جب جمعہ والے دن نماز کے لئے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ آؤ اور لین دین چھوڑ دو۔" (جمعہ: 9)

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ جہاں بھی اہل ایمان ہوں گے وہاں جمعہ پڑھا جائے گا کیا دیہات والوں میں اہل ایمان نہیں ہوتے۔ معلوم ہوا کہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے شہر یا بستی شرط نہیں بلکہ جہاں کہیں بھی اہل ایمان ہوں گے وہ نماز جمعہ پڑھیں گے بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس آیت میں (وَذَرُوا الْبَيْعَ) سے مراد کاروباری منڈیاں ہیں اور یہ صرف شہروں میں ہوتی ہیں دیہاتوں میں نہیں یہ بات درست نہیں ہے۔ کیونکہ دنیا میں کوئی گاؤں ایسا نہیں جہاں خرید و فروخت اور کاروبار نہ ہوتا ہو لوگ آپس میں لین دین نہ کرتے ہوں یہاں بیع سے مراد دنیا کے مشاغل ہیں اور وہ جیسے بھی ہوں اور جس قسم کے بھی ہوں اور جہاں بھی ہوں اذان جمعہ کے بعد انہیں ترک کرنے کا حکم ہے، کیا اہل دیہات کے لئے مشاغل دنیا نہیں ہوتے؟ کیا کھیتی باڑی، دوکانداری، کاروبار، مشاغل دنیا سے کوئی مختلف چیزیں ہیں۔

مذکورہ آیت کریمہ اور حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ ہر مسلمان پر جمعہ ضروری ہے خواہ وہ شہری ہو یا دیہاتی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ شہروں میں جمعہ ادا کرو اور دیہاتوں میں نہ کرو بلکہ آیت کریمہ اور حدیث میں مطلق طور پر جمعہ کی فرضیت کا ذکر ہے۔

ابوداؤد اور ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ ہزم النبیت جو حرۃ بنی بیاضہ میں ایک جگہ ہے وہاں جمعہ ادا کیا گیا تھا اور وہاں چالیس آدمی تھے۔ یہ مدینہ سے ایک میل کے فاصلہ پر گاؤں واقع ہے۔ اسی طرح صحیح البخاری اور ابوداؤد میں ہے کہ عبداللہ عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ والی مسجد کے علاوہ اسلام میں پہلا جمعہ جواثی میں ادا کیا گیا جو بحرین کے دیہاتوں میں سے ایک دیہات تھا۔

کتب احادیث میں جمعہ کے قیام کے لئے لوگوں کی تعداد یا بستی کا بڑا چھوٹا ہونا کوئی شرط نہیں لگائی گئی یہ لوگوں کی اپنی وضع کردہ شرائط ہیں۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اہل بحرین کی طرف لکھا تھا " جمعُوا حَيْثُ مَا كُنْتُم " تم جہاں کہیں بھی ہو جمعہ ادا کرو۔ (فتح الباری، ابن ابی شیبہ) اہل دیہات کے جمعہ کے متعلق علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "التحقیقات العلی" ملاحظہ فرمائیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الجمعہ،صفحہ:183

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ