سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(82) سجدہ سہو

  • 22515
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1082

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر نمازی بے خبری میں پانچویں رکعت میں کھڑا ہو جائے اور اسے حالت قیام میں ہی یاد آ جائے کہ میں پانچویں میں کھڑا ہوں تو کیا اسی وقت بیٹھ جائے یا رجوع و سجود و دیگر اجزائے رکعت ادا کر کے بیٹھے پھر سلام پھیریں۔ حنفیہ کا موقف تو معلوم ہے کہ جیسے ہی یاد آ جائے فورا حالت تشہد میں واپس آ جائے خواہ کسی حالت میں ہو براہ کرم اپنا واضح فتویٰ تحریر فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔ (محمد اسحاق سلفی، تھٹہ تحصیل جنڈ ضلع اٹک)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پانچ رکعت پڑھی تو آپ سے کہا گیا کیا نماز میں اضافہ کر دیا گیا ہے؟ آپ نے فرمایا وہ کیا؟ صحابی نے کہا آپ نے پانچ رکعات نماز پڑھی ہے پھر آپ نے سلام کے بعد دو سہو کے سجدے کئے۔ (صحیح البخاری، کتاب السھو، باب اذا صلی خمسا 1226، صحیح مسلم، کتاب المساجد مواضع الصلاۃ، باب السھو فی الصلاۃ 572، ابوداؤد مع عون 1/390، ترمذی مع تحفۃ الاحوذی 2/423،424)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں رقم طراز ہیں کہ اس حدیث میں امام مالک، امام شافعی، امام احمد اور جمہور سلف و خلف رحمہم اللہ اجمعین کے مذہب کی دلیل ہے کہ جس آدمی نے اپنی نماز میں بھول کر ایک رکعت زائد کر دی اس کی نماز باطل نہیں ہوتی۔

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور اہل کوفہ نے کہا ہے کہ جب بھول کر ایک رکعت زائد کر دے اس کی نماز باطل ہو جاتی ہے اس پر نماز کا اعادہ لازم ہے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اگر چوتھی رکعت میں تشہد بیٹھا پھر پانچویں زائد کر دی تو وہ ساتھ چھٹی رکعت ملا کر انہیں جفت کر دے اور یہ دو رکعت نفل ہو جائیں گی اس بناء پر کرتے ہوئے اس لئے کہ سلام واجب نہیں ہے اور ہر اس عمل کے ساتھ نماز سے نکل سکتا ہے جو نماز کے منافی ہو اور ایک رکعت اکیلی نماز نہیں ہوتی اور اگر چوتھی رکعت میں تشہد کے لئے نہیں بیٹھا تو اس کی نماز باطل ہو جاتی ہے اس لئے کہ بقدر تشہد بیٹھنا واجب ہے جس کی ادائیگی اس نے نہیں کی یہاں تک کہ پانچویں کو کھڑا ہو گیا۔ مذکورہ بالا حدیث ان تمام باتوں کو رد کرتی ہے اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پانچویں رکعت سے نہ واپس پلٹے ہیں اور نہ ہی ساتھ ایک اور رکعت ملا کر اسے جفت کیا ہے۔

(شرح صحیح مسلم 5/55 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)

امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اہل علم نے اس باب میں اختلاف کیا ہے اس حدیث کے ظاہری معنی کے مطابق محدثین کی ایک جماعت کا قول ہے جن میں سے علقمہ، حسن بصری، عطاء نخعی، زہری، مالک، اوزاعی، شافعی، احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ ہیں۔ سفیان ثوری نے کہا ہے کہ اگر نمازی چوتھی رکعت میں نہیں بیٹھا تو مجھے زیادہ پسند ہے کہ وہ اعادہ کرے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اگر چوتھی رکعت میں بقدر تشہد نہیں بیٹھا اور پانچویں کا سجدہ کر لیا تو اس کی نماز فاسد ہے اس پر لازم ہے کہ نماز نئے سرے سے ادا کرے۔ اور اگر چوتھی میں بقدر تشہد بیٹھا ہے تو اس کی نماز ظہر مکمل ہو گئی اور پانچویں رکعت نفل ہے وہ اس کے ساتھ ایک اور رکعت ملا لے پھر تشہد بیٹھے اور سلام پھیر دے اور سہو کے دو سجدے کر لے۔ تو اس کی نماز پوری ہو گئی امام خطابی فرماتے ہیں سنت کی پیروی اولیٰ ہے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی سند اتنی عمدہ ہے کہ اہل کوفہ کے ہاں اس سے زیادہ عمدہ کوئی سند نہیں۔ جو شخص ظاہر حدیث کی طرف گیا ہے تو یہ صورت اس سے خالی نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوتھی رکعت میں تشہد کیا یا نہیں کیا۔

اگر آپ نے چوتھی رکعت میں تشہد نہیں کیا تو آپ نے نماز نئے سرے سے ادا نہیں کی بلکہ اس نماز کو شمار کیا اور سہو کے دو سجدے کئے ہر دو صورتوں میں اہل کوفہ کی بات میں فساد و خرابی داخل ہو جاتی ہے۔ (مزید تفصیل کے لئے دیکھیں تحفۃ الاحوذی 2/425، 426 بیروت، نیل الاوطار ابواب سجود السہو ص 569 ط جدید)

مذکورہ بالا توضیح سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص بھول کر چار رکعات والی نماز میں پانچویں کا اضافہ کر بیٹھے تو وہ سجدہ سہو کر لے تو اس کی نماز درست ہو جاتی ہے۔ اضافہ کا موقف بے دلیل ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الصلوٰۃ،صفحہ:127

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ