سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(53) کرامت کیا ہے؟

  • 22486
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 2166

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کرامت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ صاحب کرامت کیسے بنتے ہیں کیا کرامت اتفاقیہ عمل ہے یا مستقل صاحب کرامت کا اختیار کہاں ہوتا ہے۔ صوفیوں کے اکثر واقعات خلاف شریعت ہوتے ہیں وہ ان کو کرامت کے زمرے میں لاتے ہیں حضرت سلیمان علیہ السلام کے امتی کا تخت سبا آنکھ جھپکنے میں لانا اس کی وضاحت کریں؟(خاور اقبال D-46 جناح ہال پنجاب میڈیکل کالج، فیصل آباد)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تبارک و تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری اور رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع کرنے والے لوگ اللہ کے ولی و دوست ہوتے ہیں کبھی کبھار ان کے ہاتھ پر خلاف عادت کسی کام کا اظہار ہو جاتا ہے اور یہ اتفاقی عمل ہے۔ مستقل صاحب کرامت کا اختیار نہیں۔ انبیاء علیہم السلام سے خرق عادت کے طور پر جو ظاہر ہو اسے معجزہ کہتے ہیں اور اولیاء کے ہاتھ پر اگر ایسی چیز کا اظہار ہو تو وہ کرامت گردانی جاتی ہے۔ ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں کہ معجزہ عجز سے مشتق ہے جو قدرت کی ضد ہے اور تحقیقی بات صرف یہ ہے کہ معجزہ وہ ہے جو غیر کے اندر عجز کا فعل پیدا کرے اور وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ذات بابرکات ہے۔ (حاشیہ مشکوٰہ ص 530)

اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ عجز کا فعل پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے بندہ نہیں۔ قاضی عیاض رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:

"جان لیجئے کہ جو خرق عادت امر انبیاء علیہم السلام کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہے اس کو معجزہ اس لئے کہتے ہیں کہ مخلوق اس کے ظاہر کرنے سے عاجز ہوتی ہے اور جب مخلوق اس سے عاجز ہوئی تو معلوم ہوا کہ معجزہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہے۔ جو اس کے نبی کی صداقت پر دلالت کرتا ہے۔"

پھر اس کے بعد فرماتے ہیں:

"جیسے مردوں کا زندہ کرنا اور لاٹھی کا سانپ بنا دینا اور پتھر سے اونٹنی نکالنا اور چاند کا پھٹ جانا وغیرہ یہ ایسی چیزیں ہیں کہ اللہ کے بغیر کسی اور سے ان کا ہونا ممکن نہیں بلکہ یہ اللہ کا فعل ہے جو نبی کے ہاتھ پر صادر ہوتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جھٹلانے والوں کو چیلنج کر کے انہیں اس فعل کے صادر ہونے سے عاجز کر دیا۔" (الشفاء ص 162)

علاوہ ازیں دیکھیں فتح الباری 6/424 الیواقیت والجوہر للشعرانی، مقدمہ ابن خلدون المسائرہ مع المسامرہ، شرح عقائد وغیرھا کتب عقائد قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات واضح کی ہے کہ انبیاء علیہم السلام سے کافر اور مشرک قوموں نے مطالبہ کیا کہ ہمیں کوئی معجزہ، آیت یا نشانی دکھلاؤ تو انبیاء علیہم السلام نے یوں جواب دیا:

﴿وَما كانَ لَنا أَن نَأتِيَكُم بِسُلطـٰنٍ إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ...﴿١١﴾... سورة ابراهيم

"اور ہمارے لائق یہ نہیں کہ ہم تمہارے پاس کوئی معجزہ لا سکیں مگر اللہ تعالیٰ کے اذن و حکم سے۔"

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین مکہ نے معجزے کا مطالبہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یوں جواب دیا:

﴿قُل إِنَّمَا الءايـٰتُ عِندَ اللَّهِ ...﴿١٠٩﴾... سورة الانعام

"آپ کہہ دیں کہ نشانیاں اور معجزات اللہ کے پاس ہیں۔"

نیز دیکھیں بنی اسرائیل 10/2۔

معلوم ہوا کہ معجزات و نشانیاں لانا اللہ کا اختیار ہے کسی نبی و رسول علیہ السلام کا اختیار نہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب العقائد والتاریخ،صفحہ:89

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ