سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(26) میرے لئے اللہ ہی کافی ہے!

  • 22459
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 6118

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آج کل مختلف جگہوں پر اسٹیکرز نظر آ رہے ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے لئے اللہ اور اس کا رسول ہی کافی ہے؟ وضاحت کریں کہ یہ کون سی روایت ہے اور اگر ہے تو کس موقع پر کہا گیا۔ (ڈاکٹر حق نواز قریشی، راولپنڈی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات کئی جگہ سمجھائی کہ ہمیں اللہ ہی کافی ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿فَإِن تَوَلَّوا فَقُل حَسبِىَ اللَّهُ لا إِلـٰهَ إِلّا هُوَ عَلَيهِ تَوَكَّلتُ وَهُوَ رَبُّ العَرشِ العَظيمِ ﴿١٢٩﴾... سورةالتوبة

"پس اگر یہ سب لوگ منہ موڑ جائیں تو آپ کہہ دیں مجھے اللہ کافی ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں میں نے اس پر توکل کیا اور وہ عرش عظیم کا رب ہے۔"

ایک مقام پر فرمایا:

﴿وَمَن يَتَوَكَّل عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسبُهُ ...﴿٣﴾... سورة الطلاق

"اور جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اسے کافی ہو جاتا ہے۔"

ایک مقام پر فرمایا:

﴿أَلَيسَ اللَّهُ بِكافٍ عَبدَهُ...﴿٣٦﴾... سورة الزمر

"کیا اللہ اپنے بندے کو کافی نہیں۔"

الغرض اللہ تعالیٰ پر ایمان، توکل، اسے اپنے تمام امور میں کافی سمجھنا اسلامی عقیدہ ہے بعض لوگ اس سے منحرف ہو جاتے ہیں اور قرآن و سنت کے دلائل میں تحریف کا ارتکاب کرتے ہیں جس کی ایک مثال یہ ہے جس کی طرف آپ نے توجہ دلائی ہے اصل روایت یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا اس دوران میرے پاس کچھ مال آ گیا۔ میں نے سوچا کہ آج کے دن میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اگر سبقت لے لی تو سبقت لے سکتا ہوں، کہتے ہیں میں اپنا آدھا مال لے کر آ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تو نے اپنے گھر والوں کے لئے کیا باقی رکھا، میں نے کہا اسی کی مثل اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جو کچھ تھا لے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اے ابوبکر تم نے اپنے گھر والوں کے لئے کیا باقی رکھا تو انہوں نے کہا: " أَبْقَيْتُ لَهُمُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ " میں نے ان کے لئے اللہ اور اس کے رسول (کی رضا مندی) کو باقی رکھا میں نے سوچا میں کسی چیز میں بھی ان سے آگے کبھی نہیں نکل سکتا (ترمذی 3675، ابوداؤد 1678، حاکم 1/414) شارحین حدیث نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس جملے " أَبْقَيْتُ لَهُمُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ " کی شرح " رضاهما " سے کی ہے یعنی اللہ اور اس کے رسول کی رضامندی جیسا کہ ملا علی قاری حنفی نے مشکوٰۃ کی شرح مرقاۃ 10/379 اور علامہ عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری نے تحفۃ الاحوذی 10/154 میں ذکر کیا ہے لہذا اسے غلط رنگ دے کر بیان کرنا درست نہیں ہے ہر مسلمان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت رکھتا ہے اور وہی کام کرنا پسند کرتا ہے جسے اللہ نے پسند کیا یا اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ جو مقام صدیقیت پر فائز تھے انہوں نے بھی صدقہ کرتے وقت جب سب کچھ دے دیا تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ہی دیا اسی طرح کہا کہ گھر میں اللہ اور اس کے رسول کی رضا ہی چھوڑی ہے۔ واللہ اعلم

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب العقائد والتاریخ،صفحہ:57

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ