سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(287) عورتوں کے دین اور عقل میں کمی کا مطلب

  • 22353
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 1138

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(النساء نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ)’’عورتیں دین اور عقل میں کم ہوتی ہیں ۔‘‘ یہ حدیث شریف ہم ہمیشہ سنتے رہتے ہیں۔ بعض لوگ اس حدیث کو بنیاد بنا کر عورتوں کے بارے غلط رویہ اپناتے ہیں۔ ہم جناب سے اس حدیث کے مفہوم کی وضاحت چاہیں گے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

(مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ، أَغْلَبَ  للب الرجل الحازم من إحداكن فقيل يا رسول الله ما نقصان عقلها ؟ قال: أليست شهادة المرأتين بشهادة رجل؟ قيل: يا رسول الله ما نقصان دينها؟ قال: أليست إذا حاضت لم تصل ولم تصم) (رواہ البخاری 1؍83 والذھبی 20)

’’ میں نے عقل اور دین میں کم اور ایک دانا آدمی کی عقل پر غالب آنے والیاں تم سے بڑھ کر نہیں دیکھیں۔ دریافت کیا گیا یا رسول اللہ!  اس کی عقل میں کمی کیسے ہے؟فرمایا : کیا دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر نہیں ہے؟ پھر پوچھا گیا یا رسول اللہ ! اس کے دین میں کمی کیسے ہے؟ فرمایا: کیا ایسا نہیں ہے کہ وہ دوران حیض نماز پڑھتی ہے نہ روزے رکھتی ہے؟‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی ہے کہ عورت کا ناقص عقل ہونا اس کی قوت حافظہ میں کمی کی وجہ سے ہے۔ اس کی گواہی دوسری عورت کی گواہی کے ساتھ مل کر مکمل ہو گی۔ اس طرح اس کی گواہی مضبوط ہو گی کیونکہ عورت کبھی بھول بھی سکتی ہے۔ بھول کر گواہی میں اضافہ بھی کر سکتی ہے۔ جہاں تک اس کے دین میں نقص کا تعلق ہے تو وہ اس بناء پر ہے کہ عورت حیض اور نفاس کے دوران نماز روزہ چھوڑ دیتی ہے۔ بعد ازاں روزوں کی قضاء تو دیتی ہے جبکہ نماز کی قضاء دینے کی مکلف نہیں۔ لیکن بہ نقص قابل مواخذہ نہیں ہے۔ یہ نقص صرف اللہ تعالیٰ کی شریعت کی رو سے ہے اور صرف اس کی آسانی اور سہولت کے پیش نظر ہے، کیونکہ حیض اور نفاس کے دوران روزہ رکھنا اس کے  لیے  نقصان دہ ہے۔ لہذا رحمت باری کا تقاضا ہوا کہ وہ ان ایام میں روزہ رکھنا چھوڑ دے۔ حیض کے دوران اس کی حالت طہارت سے مانع ہوتی ہے، تو رحمت الٰہی نے یہاں بھی اس کے ترک نماز کو مشروع قرار دے دیا۔ یہی حکم نفاس کا ہے۔ پھر نماز کے بارے میں حکم دیا کہ اس کی قضاء بھی نہیں ہو گی، کیونکہ نماز دن رات میں پانچ بار ادا کرنا ہوتی ہے، لہذا اس کی قضاء میں عورت کے  لیے  بڑی مشقت ہے۔ حیض کے دن سات یا آٹھ بھی ہو سکتے ہیں جبکہ نفاس کی مدت چالیس دن تک بھی ہو سکتی ہے، تو چونکہ نمازوں کی تعداد کافی زیادہ ہوتی ہے، اس  لیے  اللہ تعالیٰ نے اس پر رحمت اور احسان کرتے ہوئے نماز کو یکسر معاف فرما دیا ہے۔ نہ تو اسے ادا کرے گی اور نہ ہی اس کی قضاء دے گی، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ عورت ہر اعتبار سے ناقص عقل و دین ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت فرما دی ہے کہ عورت میں نقص عقل عدم ضبط کی بناء پر ہے، جبکہ نقص دین حیض و نفاس کے دوران نماز روزہ چھوڑنے کی وجہ سے ہے۔ اس سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا کہ وہ ہر پہلو میں مرد سے کم تر اور مرد ہر اعتبار سے برتر ہے۔ ہاں بحیثیت مجموعی کئی اسباب کی بناء پر جنس مرد جنس عورت سے افضل ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّـهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ﴾ (النساء 4؍34)

’’ مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس  لیے  کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس  لیے  کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ۔‘‘

عورت بعض اوقات کئی چیزوں میں مرد پر فوقیت حاصل کر لیتی ہے۔ بے شمار خواتین، عقل، دین اور ضبط میں کئی مردوں سے بڑھ کر ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی رو سے عورتیں صرف ان دو حیثیتوں سے عقل و دین میں ناقص ہیں۔

نیک اعمال، تقویٰ و طہارت اور اخروی منازل کے اعتبار سے عورتیں کبھی بہت سے مردوں پر سبقت لے جاتی ہیں اسی طرح عورتوں کو بعض معاملات میں خاصی دلچسپی ہوتی ہے جس کی بناء پر وہ کئی مردوں سے حفظ و ضبط میں بڑھ جاتی ہیں اور وہ تاریخ اسلام اور دیگر کئی امور میں مرجع کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ جو شخص عہد نبوی اور بعد کی خواتین کے حالات کا بغور مطالعہ کرے گا تو اس پر مذکورہ بالا حقیقت آشکارا ہو جائے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ مخصوص قسم کا نقص اس پر اعتماد فی الروایۃ سے مانع نہیں ہے۔ اسی طرح اگر اس کی گواہی دوسری عورت کے ساتھ مل کر مکمل ہو جائے تو معتبر ہو گی۔ اگر عورت دین میں استقامت کا مظاہرہ کرے تو وہ مقام تقویٰ پر فائز ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نیک اور پاکباز بندوں میں شامل ہو سکتی ہے، اگرچہ حیض و نفاس کی صورت میں اس سے نماز ہر اعتبار سے اور روزہ اداء کے اعتبار سے ساقط ہو جاتا ہے۔ تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ تقویٰ و طہارت، دینی اور دنیوی معاملات و فرائض کی ادائیگی اور دیگر معاملات میں بھی ناقص عقل و دین ہے۔ یہ نقص صرف عقل اور دین کے خاص حوالوں کے پیش نظر ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرما دی ہے۔

لہذا کسی مومن کے  لیے  یہ مناسب نہیں کہ وہ ہر اعتبار سے عورت پر ناقص عقل و دین ہونے کی تہمت لگائے۔ عورت ذات سے انصاف کرنا چاہیے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی بہترین اور خوبصورت توجیہ کرنی چاہیے۔ شیخ ابن باز

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

مختلف فتاویٰ جات،صفحہ:305

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ