سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(207) عورت کے ایام مخصوصہ میں طلاق کا حکم

  • 22273
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 714

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک خاتون دو بچوں کی ماں ہے۔ جب اس کے خاوند نے اسے طلاق دی تو وہ ایام مخصوصہ گزار رہی تھی مگر اس نے خاوند کو اس سے آگاہ نہ کیا۔ وہ قاضی کے پاس کورٹ میں گئے تو وہاں بھی اس نے اس بات کو چھپائے رکھا، صرف عورت کی ماں کو اس بات کا علم تھا۔ اس نے بیٹی سے کہہ رکھا تھا کہ عدالت کو اس بات سے آگاہ نہ کرنا ورنہ طلاق قطعا مؤثر نہیں ہو گی اس کے بعد عورت میکے چلی گئی۔ پھر اس نے بچوں کے ضائع ہونے کے خوف سے خاوند سے رجوع کرنا چاہا۔ اس طلاق کے متعلق شرعی حکم کیا ہے جو دوران حیض دی گئی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دوران حیض ہونے والی طلاق کے بارے میں علماء کا لمبا چوڑا اختلاف ہے کہ آیا یہ طلاق مؤثر ہو گی یا لغو قرار پائے گی؟ جمہور علماء کا کہنا ہے کہ ایسی طلاق مؤثر ہو گی اور ایک طلاق شمار ہو جائے گی، ہاں خاوند سے کہا جائے گا کہ وہ بیوی سے رجوع کر لے، پھر اسے آئندہ سے آئندہ طہر تک ایسے ہی چھوڑے رکھے، پھر اگر چاہے تو اسے طلاق دے دے چاہے تو بیوی بنا کر روک لے۔ ائمہ اربعہ امام احمد، امام شافعی، امام مالک اور امام ابو حنیفہ سمیت جمہور علماء کا یہی مذہب ہے جبکہ ہمارے نزدیک شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب راجح ہے۔ ان کا مذہب یہ ہے کہ ایام حیض کے دوران دی گئی طلاق غیر مؤثر ہو گی کیونکہ یہ طلاق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

(مَنْ عَمِلَ عَمَلاً ليسَ عليه أمرُنا هذا فهو رَدٌّ) (متفق علیه)

’’ جو شخص کوئی ایسا عمل کرے جس کے متعلق ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے ۔‘‘

خاص طور پر اس مسئلے کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  کی یہ حدیث دلیل ہے کہ انہوں نے دوران حیض اپنی بیوی کو طلاق دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:

(مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ثُمَّ لِيَتْرُكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ، ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدُ وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ) (متفق علیہ واللفظ لمسلم، کتاب الطلاق، حدیث 1)

’’ اسے حکم دو کہ وہ بیوی سے رجوع کرے پھر اسے آئندہ سے آئندہ طہر تک اسی حالت پر چھوڑے رکھے، پھر چاہے تو اسے چھوئے بغیر طلاق دے دے اور اگر چاہے تو بیوی بنا کر روک لے اور یہ وہ مدت ہے کہ جس کے اندر عورتوں کو طلاق دینے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ۔‘‘

پس وہ عدت جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے طلاق دینے کا حکم دیا ہے یہ ہے کہ انسان اپنی بیوی کو طہر کی حالت میں بغیر جماع کئے طلاق دے۔ چنانچہ اس بنا پر اگر خاوند نے دوران حیض بیوی کو طلاق دی تو چونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق طلاق نہیں دی اس  لیے  وہ مردود ہو گی۔ لہذا یہ طلاق جو اس عورت کو دی گئی تھی ہماری رائے میں غیر مؤثر ہے اور عورت ابھی تک خاوند کے عقد میں ہے۔ آدمی کو طلاق دیتے وقت اس کے طاہر ہونے کا علم تھا یا نہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اگر خاوند کو اس کے غیر طاہر ہونے کا علم تھا تو گناہ گار بھی ہو گا اور طلاق بھی واقع نہیں ہو گی، اور اگر اسے اس بات کا علم نہیں تھا تو وہ نہ گناہ گار ہو گا نہ طلاق نافذ ہو گی۔ ۔۔۔شیخ محمد بن صالح عثیمین۔۔۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

طلاق،صفحہ:224

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ