سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(194) میرا خاوند قطعاً میری پروا نہیں کرتا

  • 22260
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 627

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 میرا خاوند ۔۔ اللہ تعالیٰ اس سے درگزر فرمائے ۔۔ اگرچہ خشیت الٰہی کا حامل اور اخلاق فاضلہ سے متصف ہے۔ مگر میری قطعا کوئی پروا نہیں کرتا، ہمیشہ ہی ترش روئی اور سنگدلی کا مظاہرہ کرتا رہتا ہے۔ وہ اس کا ذمہ دار مجھے ہی ٹھہراتا ہے، لیکن اللہ جانتا ہے کہ بحمداللہ میں اس کے جملہ حقوق کی ادائیگی کرتی ہوں۔ ہمیشہ اس کی راحت و اطمینان کا سامان فراہم کرتی ہوں، اور اس کے  لیے  ہر ناگوار عمل سے پرہیز کرتی ہوں، اس کے باوجود جو سلوک وہ مجھ سے روا رکھتا ہے اس پر صبر کرتے ہوئے سب کچھ برداشت کرتی ہوں۔ میں جب بھی کسی چیز کے متعلق دریافت کرتی ہوں یا کسی مسئلے کے بارے میں بات کرتی ہوں تو غضب ناک ہو کر بھڑک اٹھتا ہے، اس کے برعکس وہ اپنے ساتھیوں اور دوستوں کے ساتھ خندہ رو اور ہشاش بشاش رہتا ہے، میں نے ہمیشہ ہی اس کی طرف سے بد معاملگی اور ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کیا ہے۔ اس کا یہ رویہ کبھی کبھی تو اتنا تکلیف دہ اور المناک ہوتا ہے کہ میں یہ سوچنے لگتی ہوں: کیوں نہ اس گھر بار کو خیرباد کہہ دیا جائے۔ الحمدللہ! میں مڈل حصے تک پڑھی لکھی خاتون ہوں، اور اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ فرائض کی ادائیگی میں کوشاں رہتی ہوں۔

فضیلۃ الشیخ اگر میں گھر چھوڑ دوں، تن تنہا اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کروں اور زندگی کے دکھ سکھ برداشت کروں تو کیا میں گناہ گار ہوں گی؟ یا اسی جگہ اسی حالت میں اس کے پاس رہوں اور سب کچھ پس پشت ڈال کر زندگی کے باقی ایام پورے کروں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں بیوی دونوں پر حسن معاشرت، اخلاق فاضلہ اور خندہ روئی کا تبادلہ واجب ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾  (النساء 4؍19)

’’ بیویوں کے ساتھ حسن معاشرت اپناؤ ۔‘‘

دوسری جگہ فرمایا:

﴿ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ﴾ (البقرۃ 2؍228)

’’ اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسا دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے، البتہ مردوں کو عورتوں پر (ایک گونہ) فضیلت حاصل ہے ۔‘‘

اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

(الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ) (صحیح مسلم، کتاب البر والصلة ،حدیث 14)

’’ نیکی حسن خلق کا نام ہے ۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ارشاد ہے:

(لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا وَلَوْ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ بِوَجْهٍ طَلْقٍ ) (صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، باب 43)

’’ کسی بھی نیکی کو حقیر نہ سمجھو، اگرچہ تو اپنے بھائی کو خندہ روئی سے ہی کیوں نہ ملے ۔‘‘

مزید فرمایا:

(أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا، وَخِيَارُكُمْ خِيَارُكُمْ لِنِسَائِهِمْ ، وَأنَا خَيْرُكُمْ لأَهْلِي)

’ ’ ایمان والوں میں سے کامل ترین مومن وہ ہے، جو اخلاق میں سب سے اچھا ہو۔ تم میں سے اچھے وہ ہیں جو اپنی عورتوں (بیویوں) کے  لیے  اچھے ہیں اور میں اپنے گھر والوں کے  لیے  تم سب میں سے اچھا ہوں ۔‘‘

علاوہ ازیں کئی ایک احادیث نبوی جو کہ مسلمانوں میں عمومی طور پر حسن خلق، اچھی ملاقات اور حسن معاشرت کی ترغیب دلاتی ہیں، میاں بیوی اور عزیز، رشتے داروں کو تو کہیں زیادہ ان امور پر غور کرنا چاہیے۔ آپ نے خاوند کے جور و ستم اور ایذا رسانی کے باوجود صبر جمیل کا مظاہرہ کیا جو قابل تعریف ہے۔ میں آپ کو اللہ تعالیٰ کے درج ذیل فرمان کے مطابق مزید صبر اور گھر نہ چھوڑنے کی نصیحت کرتا ہوں، کیونکہ اس میں بہت زیادہ بھلائی اور انجام بالخیر ہے۔ ان شاءاللہ

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿ وَاصْبِرُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ﴾ (الانفال 8؍46)

’’ اور صبر کرو بےشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔‘‘

دوسرے مقام پر یوں فرمایا:

﴿ إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ  ﴾ (سورة یوسف12؍90)

’’ یقینا جو شخص اللہ سے ڈر جائے اور صبر کرے پس بےشک اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا ۔‘‘

مزید فرمایا:

﴿ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ ﴾ (الزمر 39؍10)

’’ یقینا صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بغیر حساب دیا جائے گا ۔‘‘

ایک اور جگہ پر یوں فرمایا:

﴿ فَاصْبِرْ ۖ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ ﴾ (ھود 11؍49)

’’ پس صبر کیجئے تحقیق بہترین انجام پرہیزگاروں کے  لیے  ہے ۔‘‘

خاوند کے ساتھ دل لگی کرنے اور ایسے اچھے الفاظ کے ساتھ کہ جن سے اس کا دل نرم ہو جائے مخاطب ہونے میں کوئی حرج نہیں، کہ وہی الفاظ آپ کے بارے میں خوش روئی کا سبب بن جائیں اور اس میں آپ کے حقوق ادا کرنے کا شعور بیدار ہو جائے۔ (یعنی ایسا انداز تکلم جو اس کے دل کو نرم کر دے)۔ جب تک وہ تمام ضروری اور اہم معاملات کی ادائیگی پر قائم ہے، حتیٰ کہ جب تک اس کا سینہ کھل نہیں جاتا اور تمہارے بڑے بڑے مطالبات کے  لیے  اس کے دل میں وسعت پیدا نہیں ہوتی، اپنی دنیوی ضروریات کے مطالبے کو چھوڑ دیں۔ بالآخر آپ کی ہی تعریف کی جائے گی۔ ان شاءاللہ

اللہ تعالیٰ آپ کو مزید صبر و استقامت سے نوازے، آپ کے خاوند کی اصلاح فرمائے۔ اسے رشد و خیر ودیعت کرے اور حسن خلق اور خندہ پیشانی کے ساتھ بیوی کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق بخشے کہ وہی سیدھا راستہ دکھانے والا ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

میاں بیوی کے مابین معاشرت،صفحہ:207

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ