سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(166) نماز کے بعد جہراً اذکار کرنا

  • 21931
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 597

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بخاری میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث ہے:

"كُنَّا نَعْرِفُ انْقِضَاءَ صَلَاةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالتَّكْبِيرِ"

اس کا کیا معنی ہے؟ کیا اس سے ثابت ہوتا ہے پانچوں نمازوں کے بعدجہراً اذکار کرنا مباح ہے؟(فتاوی الامارات:18)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نماز کے بعد جگراً اذکار کرتے تھے تاکہ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو مشروع اذکار سکھائیں۔علامہ عینی اپنی کتاب"عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری"میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں بھی واضح اشارہ ہے لیکن اس طرح جہراً ہمیشہ نماز کے بعد نہیں کرتےتھے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں:

"كنا نعرف في عهد الرسول يَةِ ذلك"

ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے دور میں اس چیز کو ہم دیکھتے تھے۔ تو اس میں اشارہ ہے کہ انھوں نے جس چیز کو پہچانا تھا وہ مستقل نہیں تھا اور یہ ابتدائی احکام کے ساتھ مناسب ہے۔باقی آہستہ اذکار کرنے کی اور بہت ساری دلیلیں ہیں۔ ان میں سے ایک دلیل ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث ہے"موطا"اور ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ  "میں صحیح سند کے ساتھ حدیث ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسجد میں آوازیں سنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"يا أيها الناس كلكم يناجي ربه فلا يجهر بعضكم على بعض في القراءة".

اے لوگو! تم میں سے ہر ایک اپنے رب کے ساتھ سر گوشی کرتا ہے تو تمھارا بعض بعض پر قراء جہراً نہ کرے۔

اور "بغوی"میں زائد یہ الفاظ ہیں(فتؤ ذوالمؤمنين)تو تم مومنوں کو تکلیف دو گے۔

بخاری و مسلم میں ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث ہے۔ فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ سفر میں لوٹ رہے تھے تو ہم جب اونچی جگہ پہ چڑھتے تو بلند آواز سے اللہ اکبر کہتے اور جب کسی وادی میں اترتےتو بلند آواز کے ساتھ سبحان اللہ کہتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"يَا أَيُّهَا النَّاسُ ، ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ ، فَإِنَّكُمْ لا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلا غَائِبًا , إِنَّمَا تَدْعُونَ سَمِيعًا بَصِيرًا  إِنَّ الَّذِي تَدْعُونَ أَقْرَبُ إِلَى أَحَدِكُمْ , مِنْ عُنُقِ رَاحِلَتِهِ "

"اے لوگو!اپنے آپ پر نرمی کرو جس ذات کو تم پکاررہے ہو وہ بری نہیں ہے اور نہ ہی غائب ہے بلکہ تم سننے والی اور دیکھنے والی ذات کو پکارتے ہو اور تم جس کو پکارتے ہو وہ تم میں سے ہر ایک کو اس کی سواری کی گردن سے زیادہ قریب ہواور یہ میدان میں سفر کرتے ہوئے کہا تو مسجد میں کیسا حال ہو گا؟"

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

ذکر اور دعا کا بیان صفحہ:251

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ