سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(119) حج افراد حج تمتع سے افضل ہے؟

  • 21884
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1563

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض لوگ کہتے ہیں کہ حج افراد حج تمتع سے افضل ہے۔ اس لیے کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  حج افراد کیا کرتے تھے۔ اگر حج تمتع افضل ہوتا تو یہ لوگ بھی حج تمتع کرتے تو ہم ان کا رد کیسے کریں؟(فتاوی المدینہ:4)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حج افراد کہ جس کا ذکر کرتے ہیں یہ مفضول ہے ممکن ہے بعض اوقات مفضول ثابت ہو اور بعض اوقات افضل ہوتا ہے۔ حج قران اور تمتع سے بھی یہ مطلق طور پر ہے کہ جس کی کوئی دلیل بھی نہیں۔ یہ لوگ حقیقت میں اپنے مذہب کی تائید میں حج کرتے ہیں۔یہ سنت کی مدد کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے حج قران کیا ہے اور لوگوں کے لیے بیان کیا کہ ان کا جو حج قران تھا اس سے حج تمتع افضل ہے اس کی دلیل

"لَوْ أَنِّي اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمْ أَسُقْ الْهَدْيَ وَجَعَلْتُهَا عُمْرَةً"

اگر میں اپنے معاملہ میں جو بعد میں جانا پہلے جان لیتا تو ہدی ساتھ لے کر نہ آتا اور اس احرام کو عمرے والا احرام کر دیتا۔

جب یہ بات ثابت ہے کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے حج افراد کیا ہے۔قانونی طریقہ کے مطابق تو پھر وہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے حج کو کیوں بھول جاتے ہیں اور جس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کو حکم دیا اور اس فرمان کو بھی بھول گئے۔

" ثُمَّ شَبَّكَ أَصَابِعِهِ وقال: دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ"

قیامت تک عمرہ حج میں داخل ہو گیا ہے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی انگلیاں ایک دوسرے میں داخل کیں۔ہم یہ نہیں کہتے کہ حج افراد باطل ہے لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ اس کو باطل کہنا جائز نہیں ہے۔ اس لیے ہم حج کرنے والوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ حج تمتع کریں۔اگر اس کے علاوہ کوئی اور حج کرنا چاہیں تو پھر حج قران کریں کہ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے حج قران کیا ہےاور ذوالحلیفہ سے قربانی ساتھ لے کر گئے تھے۔ یا بغیر قربانی ہی کہ حج قران کرے۔ تو یہ منع ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے روکا ہے۔ اسی نصوص کے ساتھ کہ جن میں سے واضح ترین نص یہ ہے۔"دَخَلَتْ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ" کیونکہ یہ حکم عام ہے وگرنہ بات نہیں ہے کہ حج تمتع صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ مخصوص ہے کہ جس طرح  سراقہ بن مالک  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے حلال ہونے کا حکم دیا کہ جب وہ مروہ پر تھے اور آپ ان سے فرمانے لگے:

"لَوْلَا أَنِّي سُقْتُ الْهَدْيَ لأحَلَلْتُ ..."

اگر میں قربانی ساتھ لے کر نہ آتا تو حلال ہو جاتا۔

سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے پوچھا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  !کیا یہ فائدہ آپ نے ہمیں اس سال کے لیے دیا یا ہر سال کے لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عمرہ حج میں داخل ہو چکا ہے قیامت کے لیے۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

حج اور عمرہ کا بیان صفحہ:216

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ