سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(95) مذکورہ حدیث پر عمل کب کیا جائے؟

  • 21860
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 768

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ایک حدیث مروی ہے:

"عن ابن عباس رضي الله عنهما قال : (صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر والعصر جميعا، والمغرب والعشاء جميعا في غير خوف ولا سفر ولا مطر" تو اس حدیث پر کب عمل کیا جاتا ہے؟ (فتاوی المدینہ: 28)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس حدیث سے یہ مراد نہیں ہے کہ جس طرح بہت سے طالب علم ایسے تھکاوٹ کی وجہ سے اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ کسی سبب کی وجہ سے نمازوں کے درمیان جمع کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ ہر مسلمان پر اپنے شہر میں رہتے ہوئے یہ واجب ہے کہ ہر نماز اپنے وقت میں اور جماعت کے ساتھ اداکرے۔لیکن اگر اس کے لیے ایسی صورت بن جائے کہ وہ کسی مجبوری میں مصروف ہو جائے مسلسل اور اس دوران نماز کے وقت کا نکل جانے کا خدشہ ہوتو ایسی صورت میں جمع تقدیم یا جمع تاخیر کر سکتا ہےاور اس طرح سے نمازیں جمع کرنے کی علت اصل میں تکلیف کو رفع کرنا ہے لیکن جب مشکل نہ ہو تو ایسی صورت میں جمع نہیں کیا جائے گا۔ تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس پوری حدیث پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ اس حدیث کا ایک ٹکڑا ابھی باقی رہتا ہے۔ وہ یہ کہ لوگوں نے کہا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے۔

"قالوا: ماذا أراد بذلك يا أبا العباس؟ ... قال: أَرَادَ أَلاَّ يُحْرِجَ أُمَّتَهُ"

اے ابو العباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! ایسا کرنے کے ساتھ آپ کا ارادہ کیا تھا؟ تو فرمایا کہ تاکہ اپنی امت پر مشقت نہ ہوتو یہاں اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اقامت کی حالت میں بغیر خوف و بارش کے نماز یں جمع کیں۔ تو کیا ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم رفع حرج کے لیے نمازیں جمع کریں؟ تو یہاں جب عذر شرعی واضح ہو یا نہ بہر حال اس فعل کے تعلق انسان کے اپنے نفس کے ساتھ ہے کہ اگر وہ مشقت محسوس کرتا ہے ہر نماز کی اپنے وقت میں ادائیگی پر تو وہ جمع کر سکتا ہے لیکن مطلق طور پر نہیں۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

نماز کا بیان صفحہ:196

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ