سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(27) نماز اور روزے کا تعلق

  • 21715
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1536

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض مسلمان علماء ایسے مسلمان فرد کو عیب دار بتاتے ہیں جو روزہ رکھتا ہے مگر نماز نہیں پڑھتا۔ حالانکہ نماز کا روزے میں کیا دخل ہے جب کہ میں روزہ رکھ کر جنت میں باب الریان کے ذریعے داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہونا چاہتا ہوں اور یہ بات معلوم ہے کہ روزہ ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک کے گناہوں کے کفارے کا سبب ہے۔ براہ کرم وضاحت فرمائیں۔ اللہ آپ کو توفیق عطا فرمائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وہ لوگ جو آپ پر نماز نہ پڑھنے اور روزہ رکھنے کے باعث گرفت کرتے ہیں حق پر ہیں اور یہ اس لئے ہے کہ نماز دین کا ستون ہے۔ اور اسلام اس کے بغیر قائم نہیں ہوتا اور نماز کو قصدا چھوڑ دینے والا شخص کافر ہے۔ اور دینِ اسلام سے خارج ہے اور کافر کا روزہ، صدقہ، حج یا کوئی بھی نیک عمل اللہ کے ہاں مقبول نہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورہ التوبہ کی آیت نمبر 54 میں فرمایا ہے کہ:

﴿وَما مَنَعَهُم أَن تُقبَلَ مِنهُم نَفَقـٰتُهُم إِلّا أَنَّهُم كَفَروا بِاللَّهِ وَبِرَسولِهِ وَلا يَأتونَ الصَّلو‌ٰةَ إِلّا وَهُم كُسالىٰ وَلا يُنفِقونَ إِلّا وَهُم كـٰرِهونَ ﴿٥٤﴾... سورةالتوبة

’’ان لوگوں کے صدقات محض اس وجہ سے قبول نہ کئے گئے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور وہ نہیں آتے نماز کے لئے مگر سستی کے ساتھ اور نہیں خرچ کرتے مگر دل کی کراھت کے ساتھ۔‘‘

چنانچہ اسی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ جب آپ روزہ رکھتے ہیں اور نماز نہیں پڑھتے تو آپ کا روزہ درست نہیں ہے اور یہ آپ کو نہ اللہ کے ہاں فائدہ دے گا اور نہ ہی اللہ سے قریب کرے گا جہاں تک آپ کا یہ خیال ہے کہ روزہ ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ آپ اس حدیث کو نہیں جانتے جو اس سلسلہ میں وارد ہوئی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:

(الصلوات الخمس والجمعة إلى الجمعة ورمضان إلى رمضان مكفرات ما بينهن ما اجتنبت الكبائر)

’’پانچ نمازیں، ایک جمعہ کے بعد دوسرا جمعہ ادا کرنا اور ایک رمضان کے بعد دوسرے رمضان کے روزے رکھنا ان کی درمیانی مدت میں کئے ہوئے گناہوں کو مٹا دیتے ہیں جب کہ کبیرہ گناہوں سے پرہیز کیا جائے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک کے گناہوں کے مٹنے کو اس چیز سے مشروط کیا ہے کہ اس دوران آدمی کبیرہ گناہوں سے باز رہے مگر جب آپ روزہ رکھتے ہیں اور نماز نہیں پڑھتے تو آپ کبیرہ گناہوں سے نہیں بچ رہے۔ آپ غور کریں کہ نماز چھوڑنے سے بڑھ کر کون سا کبیرہ گناہ ہے بلکہ نماز چھوڑتا تو عین کفر ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ روزہ آپ کے گناہوں کا کفارہ بن سکے۔ چنانچہ ہم کہتے ہیں کہ نماز چھوڑنا کفر ہے اور آپ کا روزہ قبول نہیں ہے۔ پس اے میرے بھائی تم پر لازم ہے کہ تم اللہ کی طرف رجوع کرو سچی توبہ کرو اور وہ نماز جو اللہ نے تم پر فرض کی ہے اس کی ادائیگی کا اہتمام کرو پھر اس کے بعد روزہ رکھو اسی لئے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجنے لگے تو ان سے فرمایا کہ:

(ليكن أول ما تدعوهم إليه: شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله فإن هم أجابوك لذلك فأعلمهم أن الله افترض عليهم خمس صلوات بكل يوم و ليلة)

’’سب سے پہلے تمہیں لوگوں کو توحید الٰہی اور میری رسالت کے اقرار کی طرف دعوت دینا ہے۔ اگر وہ اس کو قبول کر لیں تو ان کو بتاؤ کہ اللہ نے ان پر ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔‘‘

اس طرح آپ نے کلمہ شہادت کے بعد نماز کو رکھا پھر اس کے بعد زکوۃ کا ذکر فرمایا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ الصیام

صفحہ:79

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ