سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(14) کیا حج تمتع کا وقت مقرر ہے؟

  • 21474
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 932

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا حج تمتع کا وقت مقرر ہے اور کیا حج تمتع کرنے والا آٹھویں تاریخ سے قبل حج کی نیت کر سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہاں! حج تمتع کا وقت مقرر ہے۔ شوال، ذی العقدۃ اور ذی الحجہ کا پہلا عشرہ یہی حج کے مہینے ہیں اس لیے شوال سے قبل یا عید الاضحیٰ کی رات کے بعد حج تمتع کی نیت نہیں کی جا سکتی لیکن افضل یہی ہے کہ صرف عمرہ کی نیت کرے اور اس سے فراغت کے بعد صرف حج کی نیت کرے۔ یہی صحیح حج تمتع ہے اور اگر کسی نے حج و عمرہ دونوں کی ایک ساتھ نیت کر لی تو اسے متمتع بھی کہا جائے گا اور قارن بھی اور دونوں حالتوں میں اسے قربانی کرنی ہو گی ایک بکرا ،اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جس نے حج تمتع (حج اور عمرہ ) کی نیت کی اسے جو  جانور میسر آئے اس کی قربانی کرے۔ اگر قربانی کی قدرت نہیں رکھتا تو دس روزے رکھے، تین دن ایام حج میں اور سات دن اپنے وطن میں۔

حج تمتع میں عمرہ اور حج کے درمیان مدت کی کوئی تحدید نہیں اگر کسی نے عمرہ شوال کے اول ایام میں کیا تو عمرہ اور( آٹھویں ذی الحجہ کو) حج کے احرام کے درمیان مدت طویل ہو گی اس لیے افضل یہی ہے کہ آٹھویں ذی الحجہ کو ہی حج کی نیت کرے جیسا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم کے مطابق کیا تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  جب مکہ مکرمہ پہنچے تو ان میں سے بعض مفرد تھے اور بعض قارن، آپ نے سب کو حکم دیا کہ عمرہ کے بعد احرام کھول دیں سوائے ان لوگوں کے جو قربانی کا جانور ساتھ لائے تھے۔

چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے طواف اور سعی کیا اور بال کٹوا کر حلال ہو کر متمتع بن گئے۔ اور پھر آٹھویں ذی الحجہ کو آپ نے ان سب کو اپنی اقامت گاہوں سے حج کی نیت کرنے کا حکم دیا ۔ اس لیے افضل یہی ہے لیکن اگر کوئی شخص شروع ذی الحجہ یا اس سے پہلے ہی حج کی نیت کر لیتا ہے تو بھی صحیح ہو گا۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

حج بیت اللہ اور عمرہ کے متعلق چنداہم فتاوی

صفحہ:23

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ