سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(110) افضل کون

  • 21450
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1999

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک حدیث میں ہے کہ دو صحابی تھے ایک شہید ہو گیا دوسرا چالیس دن بعد طبعی موت مر گیا اور پہلے جنت میں پہنچ گیا کیونکہ اس نے بعد میں زیادہ نیکیاں کر لی تھیں اس حدیث کا کیا مفہوم ہے کہ نمازی آدمی اپنی نمازوں کی وجہ سے شہید سے زیادہ رتبہ پا گیا۔ کئی لوگ یہ حدیث بیان کر کے جہاد کی مخالفت بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نمازیں پڑھتے رہو شہید سے بھی زیادہ مقام ملے گا اس حدیث کی صحیح تفہیم کیا ہے؟ (ایک سائل۔ لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلے اصل حدیث ملاحظہ فرمائیں پھر اس کا مفہوم ذکر کرتا ہوں۔ بتوفیق اللہ تعالیٰ۔

ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بنو قضاعہ میں سے دو آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسلام لائے ان دونوں میں سے ایک اللہ کی راہ میں شہید ہو گیا اور دوسرا ایک سال بعد اللہ کو پیارا ہوا۔ طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا کہ بعد میں فوت ہونے والا شہید سے پہلے جنت میں داخل ہو گیا۔ طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے بڑا تعجب ہوا میں نے صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس بات کا ذکر کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" أَلَيْسَ قَدْ صَامَ بَعْدَهُ رَمَضَانَ وَصَلَّى سِتَّةَ آلَافِ رَكْعَةٍ أَوْ كَذَا وَكَذَا رَكْعَةً صَلَاةَ السَّنَةِ "

"کیا اس نے بعد میں رمضان کے روزے نہیں رکھے اور چھ ہزار رکعات نماز یا اتنی اتنی رکعات سال بھر ادا نہیں کیں۔"

(مسند احمد 2/333 الترغیب والترھیب 1/244 مجمع الزوائد 10/207 طبع جدید 10/339 امام منذری اور علامہ ہیثمی نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔

اس طرح طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ جو خواب دیکھنے والے ہیں ان کی زبانی بھی یہ حدیث موجود ہے۔

(سنن ابن ماجہ، کتاب تعبیر الرویا، باب تعبیر الرؤیا (3925) بیہقی 3/372 مشکل الآثار للطحاری 3/100 صحیح ابن حبان)

اس صحیح حدیث سے بعض لوگ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ نماز پڑھنے والا اور روزہ رکھنے والا شخص شہید سے بھی آگے نکل جاتا ہے۔ لہذا نماز روشہ کرتے رہو جہاد کی ضرورت نہیں۔

حالانکہ یہ فلسفہ بالکل غلط ہے اور نہ ہی حدیث کا یہ مفہوم ہے کہ نماز روزہ کرتے رہیں اور جہاد نہ کریں بلکہ یہ دونوں شخص مجاہد بھی تھے اور نماز بھی تھے۔ امام طحاری نے مشکل الآثار میں اس مسئلہ کو شرح و بسط کے ساتھ تحریر کیا ہے کہ یہ دونوں شخص مہاجرین میں سے تھے اور دونوں نے اکٹھے ہجرت کی اور دونوں جہاد وغیرہ اعمال میں برابر تھے ایک تو محاذ جنگ میں شہید ہو گیا اور دوسرا مرابط (محاذ جنگ پر پہرہ دار یا ہر وقت جہاد کے لئے تیار) تھا اور اس کے ساتھ اسے دیگر اعمال صالحہ کا موقعہ بھی مل گیا اور مرابط کے بارے میں یہ حدیث بھی ہے کہ مرابط کا عمل و اجر جاری رہتا ہے لہذا یہ بعد میں فوت ہونے والا اپنے زائد اعمال کی وجہ سے اپنے بھائی سے آگے نکل گیا۔ ملاحظہ ہو (مشکل الآثار 3/103)

معلوم ہوا کہ یہ دونوں صحابی مہاجر و مجاد تھے اور ایک مجاہد شہید ہو گیا جب کہ دوسرا مجاہد اپنے سال کے اعمال صالحہ کی وجہ سے آگے نکل گیا۔ لہذا بعض متصوفین اور منکرین جہاد کا اس روایت سے استدلال کر کے جہاد چھوڑ کر گھر بیٹھے رہنا اور اللہ ہو کا تصور باندھ کر مصنوعی ذکر کے طریقوں میں مشغول رہنا اور لوگوں کو جہاد سے روکنا ایک مغالطہ اور دھوکہ ہے اللہ تعالیٰ ہدایت نصیب کرے اور یہ بھی یاد رہے کہ کچھ لوگ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں اپنے اعمال صالحہ کی بنا پر صدیقیت کے مقام پر فائز ہو جاتے ہیں اور شہداء سے بھی آگے نکل جاتے ہیں لیکن یہ مقام مکمل دین اسلام کو اپنانے اور عمل پیرا ہونے سے ہی ملتا ہے۔

جہاد فی سبیل اللہ جیسے عمل صالح اور ایمان کا انکار کر کے نہ صدیقیت کا مقام ملتا ہے اور نہ ہی شہادت کا۔

اس حدیث کے اور بھی شواہد ہیں۔ عبیداللہ بن خالد السلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کے درمیان مواخات قائم کی ان میں سے ایک شہید کر دیا گیا اور دوسرا اس کے بعد فوت ہوا ہم نے اس کا جنازہ پڑھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے کیا کہا؟ صحابہ نے کہ ہم نے اس کے لئے دعا کی:

" اللهم اغفرله اللهم ارحمه اللهم الحقه بصاحبه "

"اے اللہ تو اسے بخش دے اے اللہ تو اس پر رحم فرما اے اللہ اسے اس کے ساتھی کے ساتھ ملا دے۔"

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" فأين صلاته بعد صلاته ، وعمله بعد عمله فلما بينهما كما بين السماء والارض "

"اس کی نماز اس کی نماز کے بعد کہاں گئی اور اس کا عمل اس کے عمل کے بعد کہاں گیا؟ ان دونوں کے درمیان آسمان و زمین کا فرق ہے۔"

(سنن النسائی، کتاب الجنائز، باب الدعا (1984) سنن ابی داؤد، کتاب الجھاد، باب فی النور یری عند قبر الشھید (2524) مسند احمد 2/500 کتاب الزھد لابن المبارک (1341) مسند (79) کتاب الزھد للبیہقی (633)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الجامع-صفحہ546

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ