سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(72) حالت حمل میں طلاق اور رجوع کا حکم

  • 21412
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 3550

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص نے اپنی اہلیہ کو حالت حمل میں طلاق دے ڈالی پھر چار ماہ بعد بچہ پیدا ہو گیا اور ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے اب دونوں میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہیں کیا صلح کی کوئی گنجائش موجود ہے؟ (محمد ارشد ولد احمد علی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حالت حمل میں دی ہوئی طلاق واقع ہو جاتی ہے جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

(انه طلق امراته وهى حائض و ذكر ذلك عمر للنبى صلى الله عليه وسلم فقال مُرْه فليراجعها، ثم ليطلقها طاهرًا أو حاملًا)

"انہوں نے اپنی عورت کو طلاق دے دی اور وہ حالت حیض میں تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی تو آپ نے فرمایا۔ عبداللہ کو حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کر لے پھر اسے (بعد از حیض) طہر میں طلاق دے یا حالت حامل میں۔ (صحیح مسلم 1/476)

قاضی شوکانی فرماتے ہیں: (رواه الجماعة الا البخارى)

(نیل الاوطار 6/221)

اسے امام بخاری کے علاوہ جماعت نے روایت کیا ہے۔ عبداللہ عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔

(الطَّلَاقُ عَلَى أَرْبَعَةِ وُجُوهٍ: وَجْهَانِ حَلَالٌ وَوَجْهَانِ حَرَامٌ: فَأَمَّا الْحَلَالُ: فَأَنْ يُطَلِّقَهَا طَاهِرًا مِنْ غَيْرِ جِمَاعٍ، أَوْ يُطَلِّقَهَا حَامِلًا مُسْتَبْيِنًا حَمْلَهَا، وَأَمَّا الْحَرَامُ: فَأَنْ يُطَلِّقَهَا حَائِضًا، أَوْ يُطَلِّقَهَا حِينَ يُجَامِعُهَا لَا يَدْرِي أَيَشْتَمِلُ الرَّحِمُ عَلَى وَلَدٍ أَمْ لَا ؟)

(دارقطنی، کتاب الطلاق 3845، بیہقی 7/325)

"طلاق کی چار صورتیں ہیں دو حلال ہیں اور دو حرام۔ جو حلال ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ اسے طہر میں طلاق دے جس میں جماع نہ کیا ہو دوسری یہ کہ اس وقت طلاق دے جب حمل ظاہر ہو جائے اور وہ جو حرام ہیں ایک یہ کہ حیض کی حالت میں اہلیہ کو طلاق دے دوسری یہ کہ جماع کے بعد طلاق دے اور حمل کا کچھ علم نہ ہو۔"

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی مرفوع صحیح اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی موقوف روایت سے معلوم ہوا کہ حاملہ عورت کو بھی طلاق دی جا سکتی ہے اور یہ طلاق بدعی نہیں سنی ہے اور اس طلاق کی عدت وضع حمل ہے جیسا کہ سورۃ الطلاق میں اس کی تصریح موجود ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَأُولـٰتُ الأَحمالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعنَ حَملَهُنَّ ...﴿٤﴾... سورةالطلاق

"اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کا وضع حمل ہے۔"

اس آیت مجیدہ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر حاملہ کی عدت بچہ جنم دینے تک ہے عورت خواہ مطلقہ ہو یا بیوہ۔ امام ابن کثیر اس آیت مجیدہ کی تفسیر میں رقمطراز ہیں:

" من كانت حاملا فعدتها بوضعه ولو كان بعد الطلاق او الموت بفواق ناقة فى قول جمهور العلماء من السلف والخلف كما هو نص هذه الاية الكريمه وكما وردت به السنة النبويه "

(تفسیر ابن کثیر 4/381)

"حاملہ عورت مطلقہ یا بیوہ ہو دونوں کی عدت ان کے بچے کا پیدا ہونا ہیں خواہ یہ عمل طلاق یا خاوند کی موت کے بعد فورا وقوع پذیر ہو جائے جمہور علماء سلف و خلف کا یہی قول ہے۔"

قرآن مجید کی نص اور سنت نبویہ اس پر دلالت کرتی ہیں کہ عورت کے بچہ پیدا ہوتے ہی نکاح ختم ہو چکا ہے اور اب رجوع نہیں اگر آدمی کی طلاق پہلی یا دوسری ہے تو ازسرنو نکاح ہو سکتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَإِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ فَبَلَغنَ أَجَلَهُنَّ فَلا تَعضُلوهُنَّ أَن يَنكِحنَ أَزو‌ٰجَهُنَّ إِذا تَر‌ٰضَوا بَينَهُم بِالمَعروفِ ... ﴿٢٣٢﴾... سورةالبقرة

"جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو انہیں ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ آپس میں اچھے طریقے سے راضی ہو جائیں۔"

اس آیت کریمہ میں دو رجعی طلاقوں کی عدت گزر جانے کے بعد دوبارہ نکاح کا حکم ذکر کیا گیا ہے یعنی اگر شوہر نے پہلی یا دوسری طلاق دی ہو اور عدت گزر چکی ہو تو دوبارہ اگر باہمی رضا مندی سے اکٹھے ہونا چاہیں تو نکاح کر کے اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ لہذا صورت مسئولہ میں چونکہ عدت گزر چکی ہے اور طلاق دہندہ کی اگر پہلی یا دوسری طلاق ہے تو نیا نکاح کر کے اپنا گھر آباد کر سکتے ہیں۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الطلاق-صفحہ362

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ