سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(2) اللہ تعالیٰ سے سوال کرنا

  • 21342
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 4269

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

درج ذیل روایات کی کیا حقیقت ہے؟

(1) جوتی کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو اللہ تعالیٰ سے سوال کرو۔

(2) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماشاءاللہ وما شئت کہنے سے منع کیا۔

(3) من کنت مولاہ فعلی مولاہ کا صحیح مفہوم اور حوالہ ذکر کریں نیز یہ بھی بتائیں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی مشکل کشا ہے؟ (حاجی عبدالحمید مشتاق ٹاؤن عثمان مسجد بند روڈ لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں۔

(1) پہلی حدیث

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" يسئل احدكم ربه حاجته كلها حتى يسأله شسع نعله إذا انقطع "

"تم میں ہر کوئی اپنی حاجات اپنے رب سے مانگے یہاں تک کہ جب جوتی کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اس سے مانگے۔"

(شعب الایمان للبیہقی 2/41 (1116) مجمع الزوائد کتاب الادعیۃ باب سوال العبد حوائجہ کلھا والاکثار من السوال 10/228ط جدید (71221) صحیح ابن حبان (موارد: 2402) عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی (354) ترمذی (3682) الکامل لابن عدی 6/207 تھذیب الکمال 2/1131 مسند بزار (کشف الاستار (3135) 4/37) مسند ابی یعلی 6/130 (3403) معجم شیوخ ابی یعلی (284)

اس حدیث کے موصول و مرسل ہونے میں اختلاف ہے امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے اس کو جعفر بن سلیمان از ثابت البنانی از نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت سے راویوں نے روایت کیا ہے انہوں نے ثابت البنانی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان انس کا ذکر نہیں کیا۔

یعنی امام ترمذی نے ایک تو جعفر بن سلیمان کے تفرد کی وجہ سے اسے غریب کہا ہے اور دوسرے جعفر بن سلیمان کے اکثر شاگردوں نے اسے مرسل بیان کیا ہے موصول بیان نہیں کیا۔ اس کے جوابات درج ذیل ہیں۔

(1) جعفر بن سلیمان کا تفرد مضر نہیں اس لیے کہ یہ مسلم کے راویوں سے ہے۔ اسے امام احمد، امام یحیی بن معین، امام علی بن المدینی، امام ابن حبان اور امام ابو احمد اور ابن سعد وغیرھم نے ثقہ قرار دیا ہے۔ دیکھیں:

(تھذیب التھذیب 1/380'382، تقریب ص 56، الکاشف 1/294، تھذیب سیر اعلان النبلاء 1/485، الجرح والتعدیل 2/481)

(2) جعفر بن سلیمان سے قطن بن نسیر نے ہی اسے موصول بیان نہیں کیا۔بلکہ مسند بزار میں سیار بن حاتم نے اسے موصول بیان کرنے میں قطن کی متابعت کی ہے سیار بن حاتم کو علامہ ھیثمی نے مجمع الزوائد میں ثقہ قرار دیا ہے۔

امام ذھبی "المغنی الضعفاء 1/459 میں فرماتے ہیں:

" صالح، صالح الحديث فيه خفة ولم يضعفه احد بل قال الأزدى عنده مناكير "

"یہ صالح ہے اور صالح الحدیث ہے اس میں کچھ کمی ہے کسی نے اسے ضعیف نہیں قرار دیا لیکن ازدی نے کہا اس کے پاس منکر روایات ہیں۔"

الکاشف 1/475 میں فرماتے ہیں "صدوق" امام ابن حبان نے اسے کتاب الثقات 8/298 میں ذکر کیا ہے۔ اسی طرح قطن بن نسیر بھی حسن الحدیث راوی ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:

"صدوق یخطئی" تقریب ص 282 لہذا قطن بن نسیر حسن الحدیث اور سیار بن حاتم ثقہ راوی نے اسے موصول بیان کیا ہے۔

جس کی وجہ سے یہ حدیث صحیح ہے محدثین کا قاعدہ ہے کہ جب موصول و مرسل میں جھگڑا ہو تو حکم موصول کا ہی ہوتا ہے خواہ موصول بیان کرنے والے تعداد میں تھوڑے ہی ہوں۔ امام نووی فرماتے ہیں:

"ان الصحيح بل الصواب الذى عليه الفقهاء والاصوليون و محققو المحدثين انه اذا روى الحديث مرفوعا و موقوفا او موصولا و مرسلا فحكم بالرفع والوصل لانها زيادة ثقة و سواء كان الرافع والواصل اكثر او اقل فى الحفظ والعدد"

(شرح مسلم للنووی 1/256 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)

"یقینا صحیح بلکہ درست بات وہی ہے جس پر فقہاء اصولیین اور محققین محدثین ہیں کہ جب ایک حدیث مرفوع اور موقوف یا موصول اور مرسل روایت کی گئی ہو تو حکم مرفوع اور موصول کا لگایا جائے گا۔ اس لیے کہ وہ ثقہ راوی کی زیادت ہے۔"

خواہ مرفوع اور موصول بیان کرنے والے قوت حفظ اور تعداد میں زیادہ ہوں یا کم۔ امام نووی کے اس اصولی قاعدہ سے معلوم ہوا کہ جعفر بن سلیمان کے تلامذہ میں سے قطن بن نسیر اور سیار بن حاتم نے اس حدیث کو موصول بیان کیا ہے۔

باقی تلامذہ اسے مرسل بیان کرتے ہیں تو اس حدیث پر مرسل کا نہیں بلکہ موصول کا حکم لگے گا۔

لہذا یہ حدیث صحیح ہے اس پر کوئی اعتبار نہیں جب کہ اس کی تائید میں ایک اثر سیدہ عائشہ سے بسند صحیح مروی ہے۔

" عن عائشة رضي الله عنها قالت : ( سَلُوا اللَّهَ كُلَّ شَيءٍ حَتَّى الشِّسعَ ، فَإِنَّ اللَّهَ إِن لَمْ يُيَسِّرهُ لَمْ يَتَيَسَّرْ )"

(مسند ابی یعلی (4560) 8/44'45، المطالب العالیہ 3/232 (3353) عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی ص 128 (355) شعب الایمان 2/42 (1119) مجمع الزوائد 10/229ط جدید (17222)

"سیدہ عائشہ نے فرمایا: ہر چیز اللہ تعالیٰ سے مانگو یہاں تک کہ جوتی کا تسمہ بھی بےشک اللہ تعالیٰ اگر اس کو آسان نہ کرے تو وہ آسان نہیں ہوتا۔"

حضرت انس کی حدیث کا ایک شاہد ابوہریرہ کی حدیث بھی ہے جسے امام بیہقی نے شعب الایمان (1118) 2/41 میں روایت کیا ہے لیکن اس کی سند قوی نہیں ہے۔

(2) دوسری حدیث

(ماشاءاللہ وما شئت کی حقیقت)

" عن ابن عباس ان رجلا قال للنبى صلى الله عليه وسلم: ما شئت فقال له النبى صلى الله عليه وسلم أجعلتنى لله عدلا؟ بل ماشاءالله وحده "

(مسند احمد 1/214'224'283'347 بیہقی 3/217 فتح الباری 11/540 عمل الیوم واللیلۃ للنسائی (988) الادب المفرد (804) ابن السنی (667) تاریخ بغداد 8/105)

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں تو اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم تو نے مجھے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے بلکہ جو اللہ اکیلا چاہے۔

یہ روایت اجلح عبداللہ کی وجہ سے حسن ہے۔ یہ حدیث اس طرح بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" إذا حلف أحدكم فلا يقل: ما شاء الله وشئت، ولكن ليقل: ما شاء الله ثم شئت "

(صحیح ابن ماجہ، کتاب کفارات، باب النھی ان یقال ماشاءاللہ وشئت 2/200 سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ (136'139'1093)

"جب تم میں سے کوئی حلف اٹھائے تو نہ کہے جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں لیکن یوں کہے جو اللہ چاہیں پھر آپ چاہیں۔"

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک آدمی نے خواب دیکھا کہ وہ اہل کتاب کے ایک آدمی سے ملا ہے اس نے کہا: تم اچھی قوم ہو اگر تم شرک نہ کرو تم کہتے ہو جو اللہ چاہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں۔

اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ذکر کی تو آپ نے فرمایا:

" أَمَا وَاللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأَعْرِفُهَا لَكُمْ قُولُوا : مَا شَاءَ اللَّهُ ، ثُمَّ شَاءَ مُحَمَّدٌ "

"اللہ کی قسم میں اس بات کو جانتا ہوں یوں کہا کرو جو اللہ چاہے پھر محمد چاہیں۔"

(صحیح ابن ماجہ، کتاب کفارات، باب النھی ان یقال ماشاءاللہ وشئت 2/200 سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ (137) مسند احمد 5/393 عمل الیوم واللیلۃ للنسائی (985)

یعنی اللہ کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو شریک نہ بناؤ بلکہ اللہ کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرو اس لیے کہ اللہ کا کوئی ہمسر نہیں سب اس کے بندے ہیں۔

اس مفہوم کی حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے: (مسند احمد 5/72 سنن الدارمی (2702) ابن ماجہ، کتاب الکفارات، باب النھی ان یقال ماشاءاللہ و شئت) میں مروی ہے۔

قبیلہ جھینہ کی ایک عورت قتیلہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا تم شرک کرتے ہو اور حصہ دار بناتے ہو تو کہتے ہو جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں اور تم کہتے ہو کعبہ کی قسم تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ جب حلف کا ارادہ کریں تو کہیں:

" ورب الكعبة، ويقول أحدهم : ماشاء الله ثم شئت "

"رب کعبہ کی قسم اور ان میں سے ہر کوئی کہے جو اللہ چاہے پھر آپ چاہیں۔"

(عمل الیوم واللیلۃ للنسائی (986) سنن النسائی، کتاب الایمان، باب الحلف بالکعفہ (3782) مسند احمد 6/371'372، مستدرک حاکم 4/297 اس حدیث کو امام حاکم اور امام ذھبی نے صحیح قرار دیا ہے۔

(3) تیسری حدیث:

(من کنت مولاہ فعلی مولاہ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث کئی ایک صحابہ کرام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:

" من كنتُ مولاهُ ، فعليٌّ مولاهُ ، اللهمَّ والِ من والاهُ ، وعادِ من عاداهُ "

"جس کا میں دوست ہوں علی بھی اس کا دوست ہے اے اللہ جو علی سے دوستی لگائے تو بھی اسے دوست بنا اور جو اس سے دشمنی رکھے تو بھی اس سے دشمنی رکھ۔"

(مسند احمد 5/419، 1/84، 119، طبرانی کبیر (4052) مجمع الزوائد 9/128 (14610) مسند بزار (2519) کتاب السنہ لابن ابی عاصم باب من کنت مولاہ فعلی مولاہ 2/590 ابن حبان (2205) ترمذی (3712) طبقات ابن سعد، مشکل الآثار، البدایہ والنھایۃ، حلیۃ الاولیا، تاریخ اصفھان،سلسلہ صحیحہ (1750) مستدرک حاکم وغیرہ کتب احادیث میں مختصر اور مطول مروی ہے۔

مذکورہ بالا حدیث کا مفہوم اس کے الفاظ سے بالکل واضح ہے کہ یہاں مولی سے مراد دوست ہے یہاں مولی سے مراد خلیفہ بلا فصل ہے اور نہ ہی مشکل کشا اور حاجت روا۔ بلکہ خلیفہ بلا فصل ابوبکر صدیق ہیں اور مشکل کشا اللہ تبارک و تعالٰی ہے۔ جو ہر کسی کے نفع و نقصان کا مالک ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے:

﴿وَإِن يَمسَسكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا كاشِفَ لَهُ إِلّا هُوَ وَإِن يُرِدكَ بِخَيرٍ فَلا رادَّ لِفَضلِهِ يُصيبُ بِهِ مَن يَشاءُ مِن عِبادِهِ وَهُوَ الغَفورُ الرَّحيمُ ﴿١٠٧﴾... سورةيونس

"اور اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچا دے تو اسے دور کرنے والا کوئی نہیں اور اگر وہ آپ کے ساتھ کسی بھلائی کا ارادہ کر لے تو اس کے فضل کو رد کرنے والا کوئی نہیں وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور وہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔"

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ مشکل اور مصیبت کو دور کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے اس کے علاوہ کوئی نہیں۔ ایک اور مقام پر فرمایا:

﴿ أَمَّن يُجيبُ المُضطَرَّ إِذا دَعاهُ وَيَكشِفُ السّوءَ وَيَجعَلُكُم خُلَفاءَ الأَرضِ أَءِلـٰهٌ مَعَ اللَّهِ قَليلًا ما تَذَكَّرونَ ﴿٦٢﴾... سورة النمل

"بےکس و لاچار جب پکارے تو اس کی پکار کو قبول کر کے کون مصیبت کو دور کرتا ہے اور تمہیں زمیں کا خلیفہ بناتا ہے کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے (جو مشکل حل کرے) تم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔"

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

"إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلْ اللَّهَ, وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ, وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ"

(مسند احمد 1/293'303، ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ (2516) بحوالہ مشکوۃ (5302)

"اور جب بھی تو سوال کرے اللہ سے سوال کر اور جب بھی تو مدد طلب کرے اللہ سے مدد طلب کر۔ یقین کر لے بلاشبہ اگر ساری امت اس بات پر جمع ہو جائے کہ وہ تجھے کسی چیز سے نفع پہنچائے تو وہ نفع نہیں پہنچا سکتی مگر وہی جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے اور اگر ساری امت تجھے نقصان پہنچانے پر اکٹھی ہو جائے تو نقصان نہیں پہنچا سکتی مگر وہی جو اللہ نے تیرے خلاف لکھ دیا ہے۔"

مذکورہ آیات اور حدیث صحیح سے معلوم ہوا کہ ہر قسم کے نفع و نقصان کا مالک مشکل کشا اور حاجر روا صرف اللہ کی ذات ہے کائنات میں سے کوئی فرد بھی کسی سے نفع و نقصان کامالک نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے یہ بات سمجھا دی کہ آپ کی امت میں سے کوئی شخص بھی خواہ وہ نیک ہو یا بد، امیر ہو یا غریب، حکمران ہو یا رعایا، الغرض کوئی بھی کسی کی قسمت کا مالک نہیں۔ ہر قسم کا اختیار اللہ کے پاس ہے وہی مختار کل، مشکل کشا اور حاجت روا ہے۔ اس مسئلہ کی مزید تفصیل کے لیے راقم کی کتاب "کلمہ گو مشرک" ملاحظہ ہو۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب العقائد و التاریخ-صفحہ34

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ