سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(75) کیا مباہلہ کرنا جائز ہے؟

  • 21328
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1351

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا صحیح العقیدہ مسلمانوں کا اہل بدعت اور گمراہوں سے مباہلہ کرنا جائزہے؟(ایک سائل)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَمَن حاجَّكَ فيهِ مِن بَعدِ ما جاءَكَ مِنَ العِلمِ فَقُل تَعالَوا نَدعُ أَبناءَنا وَأَبناءَكُم وَنِساءَنا وَنِساءَكُم وَأَنفُسَنا وَأَنفُسَكُم ثُمَّ نَبتَهِل فَنَجعَل لَعنَتَ اللَّهِ عَلَى الكـٰذِبينَ ﴿٦١﴾... سورةآل عمران

پھر آپ کے پاس علم آجانے کے بعد جو شخص جھگڑا کرے تو کہہ دیں :آؤ!ہم اپنے بیٹے بلائیں اور تم اپنے ہم اپنی عورتیں بلائیں اور تم اپنی اور ہم اپنے اشخاص بلائیں اور تم اپنے اشخاص بلاؤ پھر ہم مباہلہ کریں کہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو۔(آل عمران61)

اس آیت کریمہ کا شان نزول یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس نجران سے دو عیسائی عاقب اور سید آئے تاکہ آپ( صلی اللہ علیہ وسلم )سے مباہلہ کریں۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا:مباہلہ نہ کرنا اللہ کی قسم!اگر وہ نبی ہوا تو ہم مباہلے کے بعد کبھی فلاح میں نہیں رہیں گے ۔اور نہ ہماری نسل باقی رہے گی۔(دیکھئے صحیح بخاری 4380ملخصا)

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:اگر وہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے مباہلہ کرنے کے لیے باہرنکلتے تو واپسی پر اپنے گھر والوں اور مال میں سے کچھ بھی نہ پاتے یعنی سب کچھ تباہ ہو جاتا:(تفسیر عبدالرزاق 1/129ح411وسندہ صحیح تفسیر ابن جریر الطبری ج3ص212وسندہ صحیح)(نیز دیکھئے مسند الامام احمد(1/248ح2225)

مشہور ثقہ تابعی قتادہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:مجھے پتا چلا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اہل نجران (کےعیسائیوں ) سے مباہلہ کرنے کے لیے نکلے پھر جب انھوں (عیسائیوں)نے آپ کو دیکھا تو ڈر گئے پھر وہ(عیسائی مباہلے کے بغیر ہی) واپس چلے گئے۔

(تفسیر عبدالرزاق 1/129ح209وسندہ صحیح تفسیر طبری 3/212وسندہ صحیح)

اس آیت کی تشریح میں یہ بھی آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے(سیدنا) علی(بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ )(سیدہ)فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  (سیدنا )حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور(سیدنا)حسین(رضی اللہ عنہم اجمعین) کو بلایا اور فرمایا:

"اللهم هؤلاء أهلي" "اے اللہ! یہ میرے اہل ہیں"(صحیح مسلم:2404دارالسلام :6220)

ان دلائل سے معلوم ہوا کہ اگر ضرورت شرعیہ ہوتو صحیح العقیدہ (اور قابل اعتماد صالح) مسلمانوں کا کفار کے خلاف مباہلہ کرنا جائز ہے۔

مباہلہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دوفریقوں کا باہم جمع ہوکر اللہ سے دعا کرنا کہ اے اللہ!جو ناحق پر اور جھوٹا ہے، اسےہلاک کردے تباہ برباد کردے۔اس پر لعنت بھيج۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذهِبَ عَنكُمُ الرِّجسَ أَهلَ البَيتِ ...﴿٣٣﴾... سورةالاحزاب

"اللہ تو یہ ارادہ کرتا ہے کہ اے اہل بیت !تم سے پلیدی کو دور کردے"(الاحزاب :33)

اس کی تشریح میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:

"نَزَلَتْ فِي نِسَاء النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. خَاصَّة"

"یہ(آیت) خاص طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیویوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ اس روایت کے راوی مشہور ثقہ تابعی عکرمہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"مَنْ شاءَ بَاهَلْتُهُ أنّها نزلتْ في شأنِ نِسَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"

کو چاہے میں مباہلہ کرنے کے لیے تیار ہوں کہ یہ (آیت) نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی ازواج (بیویوں)کےبارے میں نازل ہوئی۔

(تفسیر ابن ابی حاتم بحوالہ تفسیر ابن کثیر5/169۔170۔وسندہ حسن دوسرا نسخہ 11/153تاریخ دمشق لا بن عساکر 73/111وسندہ حسن ترجمہ اُم المومنین اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   ملۃ بنت ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہا  قلت :وفی تاریخ دمشق "زیدالنحوی "والصواب :یزید النحوی)

اس اثر سے معلوم ہوا کہ اگر شرعی ضرورت ہوتو صحیح العقیدہ اور صالح و قابل اعتماد مسلمان یا مسلمانوں کا اہل بدعت یا گمراہوں اور کفار کے خلاف مباہلہ کرنا جائز ہے لیکن یاد رہے کہ صرف نبی کا مباہلہ ایسا ہے کہ مقابلے میں آنے والے ہر شخص کی تباہی و بربادی یقینی ہے،جبکہ اُمتیوں کے مباہلے میں یہ بات نہیں ہوتی لہٰذا بہتر ہے کہ مباہلہ نہ کیا جائے۔

محدث برہان الدین البقاعی نے لکھا ہے:ہمارے استاذحافظ ابن حجرالعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ  کا ابنالامین نامی ایک شخص سے ابن عربی کے بارے میں مباہلہ ہوا۔ اس آدمی نے کہا: اے اللہ!اگر ابن عربی گمراہی پر ہے توتُو مجھ پر لعنت فرما۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا: اے اللہ!اگر ابن عربی ہدایت پر ہے توتُو مجھ  پر لعنت فرما: وہ شخص اس مباہلے کے چند مہینے بعد رات کو اندھا ہو کرمر گیا۔ یہ واقعہ 797ھ کو ذوالقعدہ میں ہوا تھااور مباہلہ(تقریباً دو مہینے  پہلے)رمضان میں ہواتھا۔(تنبیہ الغبی ص136۔137علمی مقالات ج2ص470۔471)

خلاصۃ التحقیق :

حتی الوسع مباہلہ سے گریز کرنا چاہیے اور فقہی واجتہادی مسائل کی وجہ سے مسلمانوں کا آپس میں مباہلہ کرنا جائز نہیں ہے۔بلکہ دلائل کے ساتھ فریق مخالف کو سمجھا نا چاہیے اور اگر اشد ضرورت ہوتو پھر کفرو اسلام کے اختلاف اور صریح واجماعی اور سلف صالحین کے متفقہ عقیدے پر صحیح العقیدہ نیک سمجھدار اشخاص کٹر متبدعین اور گمراہوں کے خلاف مباہلہ کر سکتے ہیں لیکن یاد رہے کہ قطعی نتیجہ صرف نبی کے مباہلے کا ہی تھاباقی امتیوں کے مباہلے کا نتیجہ اور انجام یقینی معلوم نہیں ہے۔واللہ اعلم۔(8/دسمبر2009)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔متفرق مسائل-صفحہ274

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ