سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(69) اگر ایمان ثریا(ستارے) پر بھی ہو تو؟

  • 21322
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-01
  • مشاہدات : 5205

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:ایمان آسمان کے ثریا ستارے پر جالٹکے تو بھی آل فارس سے ایک شخص اسے پالے گا۔(مسلم)

اس حدیث کے صحیح مصداق کون سے امام ہیں ؟ہم نے بعض حنفیوں کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ اس حدیث کے مصداق امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  ہیں اور کیا ابن حجر مکی نے الخیرات الحسان میں کہا ہے کہ اس سے مراد ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  ہیں؟(قاری محمد اسماعیل سلفی : جھنگ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی اس روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:

(لَوْ كَانَ الدِّينُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَذَهَبَ بِهِ رَجُلٌ مِنْ فَارِسَ - أَوْ قَالَ مِنْ أَبْنَاءِ فَارِسَ - حَتَّى يَتَنَاوَلَهُ) 

اگر ثریا (تارے)کے پاس ہوتا تو فارس یا اولاد فارس میں سے ایک آدمی اسے پالیتا ۔(صحیح مسلم:2546ترقیم دارالسلام :6497)

امام عبدالرزاق کی بیان کردہ یہی روایت مصنف عبد الرزاق میں درج ذیل الفاظ کے ساتھ ہے۔

"لَذَهَبَ  اليه رجل :لَذَهَبَ رِجَال مِنْ أَبْنَاء فَارِس حَتَّى يَتَنَاوَلُوهُ "

 (ج11ص65ح19923دوسرا نسخہ ج10ص114ح20092)

دبری کی بیان کردہ کتاب :مصنف عبدالرزاق کی یہی روایت اخبار اصفہان لابی نعیم الاصفہانی (1/4)میں بھی ابھی الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔

امام عبدالرزاق کے مشہور شاگرد امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس حدیث کو درج ذیل الفاظ کے ساتھ بیان کیا:

"لَذَهَبَ رِجَال مِنْ فَارِس :لَذَهَبَ رِجَال مِنْ أَبْنَاء فَارِس حَتَّى يَتَنَاوَلُوهُ "(مسند احمد2/309ح8081موسوعہ حدیثیہ 13/444۔445)

یہی حدیث سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دوسری سند کے ساتھ صحیح بخاری (4898)اور صحیح مسلم (ح2546ترقیم دارالسلام :6498) میں "لَنَالَهُ رِجَالٌ هَؤُلَاءِ" کے الفاظ سے موجود ہے اور صحیح بخاری (4897) میں "لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِنْ هَؤُلَاءِ" کے متن سے ثابت ہے۔

خلاصہ یہ کہ اس حدیث میں دواقسام کا ذکر ہے اور یہی دونوں اقسام مراد ہیں:

1۔رجل (فارس کا ایک آدمی)

2۔رجال (فارس کے بہت سے آدمی)

اول الذکر (رجل)سے مراد سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ہیں جیسا کہ کئی دلائل سے ثابت ہے۔ مثلاً :

1۔حدیث کے سیاق میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پر ہاتھ رکھ کر یہ الفاظ بیان فرمائے تھے۔دیکھئے صحیح بخاری(4897)

2۔حافظ ابن عبدالبر نے اس حدیث کو سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کے فضائل میں ذکر کیا ہے۔ (دیکھئے الاستیعاب 1/382ت1013)

ثانی الذکر (رجال)سے مراد فارس کےرہنے والے جلیل القدر اور صحیح العقیدہ محدثین ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے قرطبی سے نقل کیا:ان( (فارسی) لوگوں میں حفاظ حدیث مشہور ہیں جو دوسروں میں نہیں ہیں۔(دیکھئے فتح الباری ج8ص643تحت ح4898)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"ومصداق ذلك ما وجد في التابعين ومن بعدهم من أبناء فارس الأحرار والموالي مثل الحسن وابن سيرين وعكرمة مولى ابن عباس وغيرهم....الخ"

اور اس کا مصداق وہ تابعین اور ان کے بعد کے لوگ ہیں جو فارس کے رہنے والے آزاد اور آزاد کردہ غلام تھے مثلاً حسن بصری ،محمد بن سیرین ،عکرمہ مولی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وغیرہم الخ۔(اقتضاء الصراط المستقیم ص145)

وغیرہم سے مراد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  ،امام مسلم  رحمۃ اللہ علیہ  ، امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ ، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ، امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ  ،امام یعقوب بن سفیان الفارسی رحمۃ اللہ علیہ  اور دوسرے جلیل القدر محدثین ہیں ۔رحمہم اللہ اجمعین۔

دسویں صدی ہجری کے ایک متبدع ابو العباس احمد بن محمد ابن حجر الہیتمی المکی کا حدیث مذکور میں رجل سے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  مراد لینا دو وجہ سے باطل ہے:

1۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کا فارسی ہونا صحیح سند سے قطعاً ثابت نہیں ہے۔ اس سلسلے میں حنفیہ سیوطی  اور ابن حجر مکی وغیرہم جو کچھ ذکر کرتے ہیں وہ سب جھوٹ کا پلند اور باطل ہے۔

تفصیل کے لیے دیکھئے میری کتاب توضیح الاحکام (ج2ص401۔402)

2۔امام ابو حنیفہ  کا بل کے باشندے تھے جیسا کہ امام ابو نعیم الفضل بن دکین الکوفی  رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی 218ھ)نے فرمایا:ابو حنیفہ نعمان بن ثابت بن زوطی آپ کی اصل کابل سے ہے۔(تاریخ بغداد 13/324۔325وسندہ صحیح)

کابل ایک علیحدہ ملک (اقلیم )ہے اور فارس ایک علیحدہ ملک ہے۔دیکھئے معجم البلدان (3/426،4/226)اور توضیح الاحکام (2/402)

کابلی کو فارسی بنانا بہت بڑی تاریخ سازی اور فراڈہے۔

غلام رسول سعیدی بریلوی نے اپنے عینی حنفی سے نقل کیا ہے کہ"اس میں اختلاف ہےکہ وہ آخر ین منہم سے کون مراد ہیں اور اس میں یہ اقوال ہیں۔

(1)تابعین(2)عجم(3)ابناء عجم(4)صحابہ کے بعد کے لوگ (5)قیامت تک کے مسلمان(6) علامہ قرطبی نے کہا احسن یہ ہےکہ اس کو ابناء فارس پر محمول کیا جائے۔

یہ بات مشاہدہ سے ثابت ہو چکی ہے کہ فارس میں دینی علوم کا غلبہ ہوا اور وہاں بہت علماء کا ظہور ہوا اور یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیش گوئی کے صدق پر دلیل ہے۔"

(شرح صحیح مسلم ج6ص1242۔1243تحت ح6374۔6375بحوالہ عمدۃ القاری ج19ص235)

آپ نے دیکھ لیا کہ عینی نے متعصب حنفی ہونے کے باوجود امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کو اس حدیث کا مصداق قرارنہیں دیا مگر غلام رسول سعیدی نے اپنی بریلویت بچانے کے لیے دسویں صدی کے غیر مقلد سیوطی سے نقل کیا:"اس میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کی طرف اشارہ ہے۔"

اور اس کے بعد لکھا:

"حافظ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ  کے شاگرد علامہ شامی نے لکھا ہے کہ ہمارے استاذ نے جو یہ جزم کیا ہے وہ بالکل صحیح ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس حدیث سے مراد امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  ہیں ،کیونکہ ابنا فارس میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کے مرتبہ علم و فضل تک کوئی نہیں پہنچا۔"(شرح صحیح مسلم ج6ص1243)

سعیدی بریلوی صاحب کایہ بیان چار وجہ سے باطل ہے:

1۔سیوطی (غیر مقلد) کی وفات 911ھ ہے اور ابن عابدین شامی صاحب 1198ھ میں پیدا ہوئے تھے۔(دیکھئے معجم المولفین 3/145ت12274)

287سال بعد میں پیدا ہونے والے کیا سیوطی کی قبر میں پڑھنے کے لیے گئے تھے؟"

تنبیہ : سیوطی کے غیر مقلد ہونے کے لیے دیکھئے سیوطی کی کتاب:

"الرد على من أخلد إلى الآرض وجهل أن الإجتهاد في كل عصر فرض"

2۔امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  فارسی نہیں تھے۔

3۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کابلی تھے۔

4۔ اس روایت سے سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور احادیث علوم حدیث ،تفاسیر اور کتب اسماء الرجال لکھنے والے فارسی محدثین کرام مراد ہیں۔

اگر حنفیہ ،بریلویہ اور دیوبند یہ تینوں فرقے ناراض نہ ہوں تو عرض ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  نے جو" صحیح ابی حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  " لکھی تھی وہ کہاں ہے؟

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  نے جو کتاب التفسیر لکھی تھی وہ کہاں ہے؟

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  نے اصول فقہ و اصول حدیث کی جو کتاب لکھی تھی وہ کہاں ہے؟

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  نے اسماء الرجال کی جو کتاب لکھی تھی وہ کہاں ہے؟

آخر میں عرض ہے کہ اپنے دین میں غلونہ کریں عدل و انصاف سے کام لیں اور کیا صبح قریب نہیں ہے؟"(13/اگست 2011ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔اصول ،تخریج الروایات اور ان کا حکم-صفحہ246

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ