سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(65) شب معراج اور بیت المقدس کا کھلا دروازہ؟

  • 21318
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1017

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شیخ صاحب !تفسیر ابن کثیر کی جلد نمبر 3صفحہ 216سورہ بنی اسرائیل واقعہ معراج کے حوالے سے ایک قصہ لکھا ہوا ہے کہ:

"بیت المقدس کالا ٹ پادری جو شاہ روم کی اس مجلس میں اس کے پاس بڑی عزت سے بیٹھا تھا فوراً ہی بول اٹھا کہ یہ بالکل سچ ہے مجھے اس رات کا علم ہے۔ قیصر نے تعجب خیز نظر سے اس کی طرف دیکھا اور ادب سے پوچھا جناب کو کیسے معلوم ہوا؟ اس نے کہا سنیے میری عادت تھی اور یہ کام میں نے اپنے متعلق کر رکھا تھا کہ جب تک مسجد کے تمام دروازے اپنے ہاتھ سے بند نہ کر لوں سوتا نہ تھا اس رات میں دروازے بند کرنے کے لیے کھڑا ہوا سب دروازے اچھی طرح بند کر دئیے لیکن ایک دروازہ مجھ سے بند نہ ہو سکا میں نے ہر چند زور لگائے لیکن کواڑاپنی جگہ سے سرکا بھی نہیں ۔ میں نے اسی وقت آدمیوں کو آواز دی وہ آئے ہم  سب نے مل کر طاقت لگائی لیکن سب کے سب ناکام رہے بس یہ معلوم ہو رہا تھا کہ گویا ہم کسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے سرکانا چاہتے ہیں وہ چسکا تک نہیں ہلاتک نہیں میں نے بڑھئی بلوائے۔ لیکن وہ بھی ہار گئے کہنے لگے صبح پر رکھئے چنانچہ دروازہ اس شب یونہی (کھلا) رہا۔

میں صبح ہی دروازے کے پاس گیا تو دیکھا کہ اس کے پاس کونے میں جو چٹان پتھر کی تھی اس میں ایک سوراخ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں رات کو کسی نے کوئی جانور باندھا ہے اس کے اثر اور نشان موجود تھے۔ میں سمجھ گیا۔ آج کی رات یہ ہماری مسجد کسی نبی کے لیے کھلی رکھی گئی اس نے ضرور یہاں نماز ادا کی ہے۔"

اس واقعہ کے بارے میں تفسیر ابن کثیر میں آپ کا حکم موجود نہیں کہ آپ کے نزدیک یہ واقعہ صحیح ہے حسن ہے یا ضعیف ہے؟ مہربانی فرما کر اس واقعہ پر اپنا حکم واضح فرمائیں۔(سائل ابو ابراہیم خرم ارشاد محمدی دولت نگر)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تفسیر ابن کثیر میں یہ روایت حافظ ابو نعیم الاصبہانی رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب دلائل النبوۃ کے حوالے سے درج ذیل سند کے ساتھ موجود ہے:

"عن محمد بن كعب القرظي قال بعث رسول الله {صلى الله عليه وسلم} دحية الكلبي إلى قيصر"

 (ج4ص115الاسراء وقال ابن کثیر "فائدہ حسنۃ جلیلۃ )

یہ روایت واقدی کی وجہ سے سخت ضعیف و مردود ہے نیز اس سند میں دیگر علتیں بھی ہیں جن کا مختصر تذکرہ درج ذیل ہے۔

1۔محمد بن عمربن واقد الاسلمی الواقدی کے بارے میں امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  نے گواہی دی "کتب الواقدی کذب "واقدی کی کتابیں جھوٹ ہیں۔(کتاب الجرح والتعدیل 8/21وسندہ صحیح )

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"كان الواقدي يقلب الاحاديث يلقى حديث ابن اخى الزهري على معمر ونحو هذا"

واقدی احادیث کو اُلٹ پلٹ کردیتا تھا وہ ابن اخی الزہری کی حدیث (بن راشد )کے ذمے لگا دیتا اور اسی طرح ( کی حرکتیں)کرتا تھا۔

اس کلام پر امام اسحاق بن راہویہ  رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

"كما وصف وأشد لأنه عندي ممن يضع الحديث"

"جس طرح انھوں (احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  )نے فرمایا اسی طرح ہے اور اس سے سخت ہے کیونکہ وہ (واقدی)میرے نزدیک احادیث گھڑنے والوں میں سے تھا۔(کتاب الجرح والتعدیل 8/21) وسندہ صحیح)

امام یحییٰ بن معین نے فرمایا:

"لايكتب حديث الواقدي ليس بشيء"

واقدی کی حدیث لکھی نہ جائے وہ (واقدی ) کوئی چیزنہیں۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  ، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ  ،امام ابو حاتم الرازی رحمۃ اللہ علیہ  اور امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ  (چاروں)نے فرمایا:

"متروک الحدیث"وہ حدیث (روایت )میں متروک ہے۔(کتاب الضعفاء للبخاری بتحقیقی 344،الکنی للامام مسلم مخطوط ص65،کتاب الجرح اتعدیل 8/21کتاب الضعفاء للنسائی :531)

بلکہ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"والكذابون المعروفون بوضع الحديث على رسول الله صلى الله عليه وسلم أربعة. بن أبي يحيى بالمدينة والواقدي ببغداد، ومقاتل بن سليمان بخراسان، ومحمد بن السعيد بالشام، يعرف بالمصلوب"

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بارے میں حدیثیں گھڑنے والے مشہور جھوٹے چار ہیں۔

1۔(ابراہیم بن محمد) ابن ابی یحییٰ (الاسلمی )مدینے میں:

2۔واقدی بغداد میں:

(3)مقاتل بن سلیمان خراسان میں:

(4)اور محمد بن سعید جو مصلوب (کے لقب )سے مشہور ہے شام میں:

(آخر کتاب الضعفاء ص265رسالۃ صغیرۃ لہ)

واقدی پر حافظ ابن حبان  رحمۃ اللہ علیہ نے شدید جرح کی۔(دیکھئے کتاب المجروحین 2/290دوسرا نسخہ 303)

امام علی بن عبد اللہ المدینی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"الواقدي يُرَكِّب الأسانيد"

واقدی سندیں بناتا تھا۔(تاریخ بغداد 3/16ت939وسندہ صحیح)

بعض علماء سے واقدی کی توثیق بھی مروی ہے لیکن جمہور محدثین کی جرح کے مقابلے میں یہ مردود ہے۔

حافظ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ  اور ابن الملقن نے کہا "ضعفہ الجمہور"جمہور نے اسے ضعیف قراردیا ہے۔(مجمع الزوائد 3/255البدرالمنیر5/324)

2۔ابو نعیم کی کتاب دلائل النبوۃ میں یہ روایت نہیں ملی اور نہ ابو نعیم سے لے کر واقدی تک اس روایت کی کوئی سند معلوم ہے لہذا یہ بے سند ہے۔

3۔ابو حفص عمر بن عبد اللہ المدنی مولیٰ غفرہ قول راجح  میں جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف راوی ہے اور حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ  و حافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ  دونوں نے فرمایا"ضعیف"

(تلخیص المستدرک 1/495ح1820) تقریب التہذیب :4934)

4۔محمد بن کعب القرظی رحمۃ اللہ علیہ  تابعی تھے لہٰذا یہ سند مرسل یعنی منقطع ہے۔

خلاصۃ التحقیق:

یہ روایت سخت ضعیف و مردود ہے لہذا بغیر جرح کے اس کا بیان کرنا جائز نہیں۔

حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  نے روایت مذکورہ اپنی تفسیر میں درج کی لیکن ساتھ ہی اس کی کچھ نہ کچھ سند بھی لکھ دی جس سے اس روایت کا سخت ضعیف و مردود ہونا ظاہر ہو گیا لہٰذا اس روایت کو "" فائدة حسنة جليلة "قرار دینا غلط ہے۔

حافظ ابن کثیر  رحمۃ اللہ علیہ اور جلال الدین سیوطی  رحمۃ اللہ علیہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ابن کثیر  رحمۃ اللہ علیہ نے تو سند کا کچھ حصہ لکھ دیا تھا مگر سیوطی نے محمد بن کعب القرظی کے علاوہ ساری سند خلاف کر کے اس روایت کو بحوالہ ابو نعیم لکھ دیا ہے۔(دیکھئے الخصائص الکبری ج1ص 169۔171)

ثابت ہوا کہ اصل کتابوں سے روایات تلاش کر کے ان کی تحقیق کے بعد ہی بطور حجت یا بطور رد استدلال کرنا چاہیے اور سیوطی کے بے سند حوالوں سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے ۔ وما علینا الاالبلاغ (29/رجب 1433ح بمطابق 20/ جون 2012ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔اصول ،تخریج الروایات اور ان کا حکم-صفحہ222

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ