سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(60) کیا سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یزید کی تعریف کی تھی؟

  • 21313
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 1224

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بلا ذری نے عبد الرحمٰن بن معاویہ سے نقل کیا ہے کہ عامر بن مسعود( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے فرمایا : ہم مکہ میں تھے کہ امیر معاویہ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کی وفات کی خبر دینے والا ہمارے پاس سے گزرا تو ہم عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے پاس پہنچے وہ بھی مکہ میں تھے۔ وہ کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور دسترخوان لگایا جا چکا تھا لیکن ابھی کھانا نہیں آیا تھا تو ہم نے ان سےکہا:اے ابو العباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ! ایک قاصد امیر معاویہ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی وفات کی خبر لایا ہے۔

یہ سن کر عبد اللہ بن عباس( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کچھ دیر خاموش رہے پھر فرمایا:اے اللہ!معاویہ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )پر اپنی رحمت وسیع فرما:یقیناً آپ ان لوگوں کے مثل تو نہ تھے جو آپ سے پہلے گزر چکے ، لیکن آپ کے بعد بھی آپ جیسا کوئی نہ دیکھنے کو ملے گا اور آپ کا بیٹا یزید آپ کے خاندان کے صالح لوگوں میں سے ہے۔ اس لیے اے لوگو! اپنی اپنی جگہوں پر رہو اور اس کی بیعت کر کے اطاعت کرو۔ الخ (انساب الاشراف 5/302(ص2146)دوسرا نسخہ 5/290)

کیا یہ روایت صحیح یا حسن ہے؟(ایک سائل)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس روایت کے راوی ابو الحویرث عبد الرحمٰن بن معاویہ بن الحویرث الانصاری الزرقی المدنی کے بارے میں حافظ ہیثمی  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"والاكثر على تضعيفه" 

اور اکثر (جمہور)نے انھیں ضعیف قراردیا ہے۔(مجمع الزوائد 1/32)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے انھیں "من السادسۃ " یعنی چھٹے طبقے میں ذکر کیا ہے۔(تقریب التہذیب:4011)

ابو الحویرث عبدالرحمٰن بن معاویہ کے ضعیف عند المجہور ہونے کے لیے دیکھئے راقم الحروف کا مضمون عبدالرحمٰن بن معاویہ بن الحویرث اور جمہور محدثین ۔

عامر بن مسعود بن اُمیہ بن خلف اجمحی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے صحابی یا تابعی ہونے میں اختلاف ہے، اگر وہ صحابی ہیں عبد الرحمٰن بن معاویہ کی ان سے روایت منقطع ہے، کیونکہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے لکھا ہے:

"السادسة: طبقة عاصروا الخامسة: لكن لم يثبت لهم لقاء أحد من الصحابة، كابن جريج"(مقدمۃ التقریب ص15)

اور اگر وہ تابعی ہیں تو عبد الرحمٰن بن معاویہ کی ان سے ملاقات کا کوئی ثبوت نہیں اور نہ معاصرت ہی ثابت ہے۔

حافظ مزی نے تہذیب الکمال میں دونوں کے تراجم میں ایک دوسرے سے استادی شاگردی کا تعلق بھی بیان نہیں کیا اور نہ کسی اور کتاب میں ایسی کوئی صراحت ملی ہے لہٰذا اس سند میں انقطاع کا شبہ ہے۔

خلاصۃ  التحقیق یہ کہ روایت عبد الرحمٰن بن معاویہ کے ضعف ،نیز متصل نہ ہونے کی وجہ سے ضعیف و مردود ہے لہٰذا معاصرین میں سے کسی محمد بن ہادی الشیبانی کا اسے حسن قراردینا صحیح نہیں۔

جو شخص اس روایت کو حسن یا صحیح سمجھتا ہے اس پر یہ ضروری ہے کہ عبد الرحمٰن بن معاویہ کی عامر بن مسعود سے ملاقات یا معاصرت ثابت کرے، نیز عبد الرحمٰن بن معاویہ کا جمہور کے نزدیک موثق ہونا بھی ثابت کرے، اور نہ علمی میدان میں بے دلیل دعوؤں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔ واللہ اعلم۔

تنبیہ:انساب الاشراف للبلاذری کے موجود مطبوعہ نسخے کے بارے میں صحیح تحقیق کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی یہی نسخہ بلا ذری سے ثابت ہے۔(26/مارچ 2013ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔اصول ،تخریج الروایات اور ان کا حکم-صفحہ210

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ