سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(58) شیعہ کی پیش کردہ چند روایات کا تحقیقی جائزہ

  • 21311
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 4998

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شیخ صاحب !شیعہ حضرات کی طرف سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  پر مختلف قسم کے اعتراضات کیے جاتے ہیں۔ ان اعتراضات کی وجہ سے عام افراد صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے متعلق بد گمانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان اعتراضات کا علمی انداز میں جواب دیا جائے تاکہ جو لوگ حق کے متلاشی ہیں اور حقائق جاننا چاہتے ہیں وہ اندھیرے میں نہ رہیں ۔ذیل میں کچھ روایات ذکر کررہا ہوں جو کہ(شیعہ کی طرف سے)عام طور پرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی تنقیص میں پیش کی جاتی ہیں۔

امید کرتا ہوں کہ آپ ان روایات کا تحقیقی جائزہ لیں گے تاکہ جہالت اور ظلمت کے بادل چھٹ جائیں۔ جز کم اللہ خیراً:

1۔صحیح بخاری (4240،4241،6726)کی ایک روایت ۔

سیدہ فاطمہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا سیدنا ابو بکر صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ناراض ہو گئیں اور وفات تک بات نہ کی،براہ مہر بانی مختلف روایات کی روشنی میں اس ناراضی کی حقیقت کو واضح کیجئے!

2۔کیا سیدہ فاطمہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   بعد میں سیدنا ابو بکر صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے راضی ہو گئیں؟

السنن الکبری للبیہقی (6/300۔301) کی اس روایت کی اسنادی حیثیت کیسی ہے؟

3۔کیا سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے دور خلافت میں سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو برا بھلا کہا جاتا تھا؟صحیح مسلم (6220/2404)کی روایت کی توجیہ ہے؟

ریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ(1/262)میں یہ الفاظ ہیں۔"

"أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ...."

"کیا یہ روایت سنداً صحیح ہے؟

4۔البدایہ والنایہ(7/377) میں موجود ایک روایت :

".... وقال أبو زرعة الدمشقي : ثنا أحمد بن خالد الذهبي أبو سعيد ثنا محمد بن إسحاق عن عبد الله بن أبي نجيح عن أبيه قال..... ثم ذكر علي بن أبى طالب، فوقع فيه" کی سند کیسی ہے؟

5۔سنن ابن ماجہ (121)میں موجود الفاظ "فَذَكَرُوا عَلِيًّا ، فَنَالَ مِنْهُ" کے الفاظ کے کیا معنی ہوں گے؟

یہ روایت صحیح ہے شیخ البانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے الصحیحہ( 1750)میں اسے صحیح قراردیا ہے۔

شیخ سندھی کی شرح بھی ملحوظ خاطر رہے (دیکھئے شرح سنن ابن ماجہ 1/6)

کتاب العقد الفرید (3/300)میں موجود روایت کی حیثیت اور اس کتاب کی حیثیت کیا ہے؟

6۔مسند احمد (6/323ح26791) مزید دیکھئے مسند ابی یعلیٰ (12/444۔445)

7۔العبر فی خبر من غبر(1/35) "وأن لا يسب عليًا بحضرته"

 کیا یہ روایت سنداً صحیح ہے؟

8۔تاریخ ابی الفداء (1/283) "وأن لا يشتم علياً"

9۔البدایہ والنہایہ (8/17  "ان لا يسب علي"

10۔تاریخ دمشق (13/264 "ولايسب علي"

امید ہے کہ مندرجہ بالا روایات جو سب سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے متعلق آئی ہیں، ان کا ضرور جائزہ لیں گے۔(ڈاکٹر عبد الحفیظ سموں ، بدین سندھ )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ان روایات کی تحقیق تفصیل اور مفہوم درج ذیل ہے۔

1۔صحیح بخاری کی اس حدیث میں آیا ہے کہ سیدہ فاطمہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے سیدنا ابو بکر (الصدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سےنبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی میراث مدینہ فدک اور خیبر کے خمس کا بقیہ حصہ طلب کیا تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

"لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"

"ہماری (انبیاء ورسل کی)وراثت نہیں ہوتی ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔"

نیز فرمایا محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کی آل والے اس مال سے کھا سکتے ہیں۔اور اللہ کی قسم! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صدقات کی حالت کو تبدیل نہیں کروں گا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں حالت تھی اور میں وہی کروں  گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کیا کرتے تھے۔

اس کے بعد صحیح بخاری  میں لکھا ہوا ہے۔"

"فَاطِمَةَ شَيْئًا فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ قَالَ فَهَجَرَتْهُ فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ"

پس فاطمہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے ابو بکر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کے بارے میں اس بات کو محسوس کیا تو ان سے جدائی کی اور اپنی وفات تک ان سے (اس کے بارے میں )کوئی کلام نہیں کیا:وہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد چھ مہینے زندہ رہیں۔(صحیح بخاری:4240۔4241)

اس صحیح حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ سیدنا ابو بکرالصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کو اپنی کسی ذاتی وجہ سے باغ فدک وغیرہ دینے سے انکار نہیں کیا تھا بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی صحیح و ثابت حدیث پر عمل کیا تھا لہٰذا وہ اس مسئلے میں بالکل معذرو ہیں۔

اس حدیث کی تحقیق ایک مضمون کی صورت میں پیش خدمت ہے:

انبیاء کی وراثت علم ہے

ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"

"ہماری وراثت نہیں ہوتی ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔"(صحیح بخاری :4240۔4241صحیح مسلم 1759،دارالسلام :4580)

اس حدیث کی مختصر و جامع تخریج و تحقیق درج ذیل ہے:

1۔سیدنا ابو بکر الصدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"إنما يأكل آل محمد صلى الله عليه وسلم في هذا المال وإني والله لا أغير شيئا من صدقة رسول الله صلى الله عليه وسلم عن حالها التي كانت عليها في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ولأعملن فيها بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم"

"ہماری وراثت نہیں ہوتی، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے:

(ابو بکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا: )محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کی آل والے تو اس مال سے کھائیں گے اور اللہ کی قسم! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صدقات میں سے کسی چیز کو بھی اس حالت سے نہیں بدلوں گا ۔جس پر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں تھی اور میں ضرور بالضرور وہی عمل کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتےتھے۔(صحیح بخاری:4240۔4241۔صحیح مسلم 1759،واللفظ لہ)

2۔سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعد آپ کی (بعض )ازواج نے ابو بکر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )سے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی میراث میں سے اپنا حصہ مانگا تو عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے فرمایا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ"

"لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"

"ہماری وراثت نہیں ہوتی، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے:

(صحیح بخاری :3094،4033،صحیح مسلم ،1757)

4۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لاَ يَقْتَسِمُ وَرَثَتِي دِينَارًا وَلاَ دِرْهَمًا مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي ، وَمَئُونَةِ عَامِلِي فَهُوَ صَدَقَةٌ ..."

"میرے ورثاء ایک دینار اور ایک درہم بھی تقسیم میں نہیں لیں گے۔میری بیویوں کے نان نفقے اور میرے عامل کے خرچ کے بعد میں نے جو بھی چھوڑا وہ سب صدقہ ہے۔"(صحیح بخاری :2776صحیح مسلم 1760الموطا روایۃ یحییٰ 2/993ح،روایۃ ابن القاسم :372)

5۔سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف ،سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سیدنا زبیر بن العوام  رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اس بات کی تصدیق کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تھا:"ہماری وراثت نہیں ہوتی، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے:(صحیح بخاری : 4033،صحیح مسلم ،1757)

6۔سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (دیکھئے فقرہ :5)

7۔سیدنا زبیر بن العوام  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  (دیکھئے فقرہ :5)

8۔سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ (دیکھئے فقرہ :5)

9۔سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (صحیح بخاری:5358)

10۔سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  (صحیح بخاری:5358)

11۔سیدہ جویریہ بنت الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھائی عمرو بن الحارث ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی وفات کے وقت ترکے میں نہ درہم چھوڑا اور نہ دینار چھوڑا ، نہ غلام نہ لونڈی اور نہ کوئی چیز چھوڑی سوائے سفید خچر کے، اسلحے اور کچھ زمین کے جسے آپ نے صدقہ کر دیا تھا۔(صحیح بخاری :2739)

اس سے ثابت ہوا کہ اصول محدثین پر یہ حدیث متواتر ہے۔

نیز دیکھئے قطف الازھارالمتناثرہ فی الاخبار المواتر ہ للسیوطی (ح100)نظم المتناثر من الحدیث المتواتر (ح272) اور لقط اللالی المتناثرۃ فی الاحادیث المتواترہ (ح26)

شیعہ اسماء الرجال کی روسے صحیح روایت میں آیا ہے کہ ابو عبد اللہ (جعفر بن محمد الصادق  رحمۃ اللہ علیہ )سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ ، إِنَّ الأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلا دِرْهَمًا ، إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ ، فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ "

اور بے شک انبیاء کے وارث علماء ہیں، بے شک نبیوں کی وراثت درہم اور دینار نہیں ہوتی لیکن وہ علم کی وراثت چھوڑتے ہیں جس نے اسے لے لیا تو اس نے بڑا حصہ لے لیا۔("اصول من الکافی للکلینی ج1ص34باب ثواب العالم والمعلم ص1وسندہ صحیح عندالشیعہ )

اہل سنت کی متواتر احادیث اور شیعہ کی اس عندالشیعہ صحیح روایت  سے ثابت ہوا کہ انبیاء ورسل کی مالی وراثت نہیں ہوتی بلکہ وہ جو کچھ چھوڑ جائیں صدقہ ہے۔ ان کی وراثت علم کی وراثت ہے اور خوش نصیب ہے وہ شخص جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے علم کو حاصل کرے، اس پر کماحقہ عمل کرے اور اپنی ساری زندگی کتاب وسنت کے مطابق گزاردے۔

ایک آیت میں آیا ہے کہ سلیمان  علیہ السلام  داؤد  علیہ السلام  کے وارث ہوئے، اس سے مراد مالی وراثت نہیں بلکہ علم کی وراثت ہے۔

صحیح اور متواتر حدیث کی وجہ سے باغ فدک کا مطالبہ پورا نہ کرنا ایسا شرعی عذر ہے۔

جس کا کوئی شخص زمانہ تدوین حدیث کے بعد انکار نہیں کر سکتا اور نہ یہ کہہ سکتا ہے یہ حدیث ضعیف ہے۔

جس حدیث کو سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور سیدنا عباس بن عبد المطلب وغیرہم رضی اللہ عنہم اجمعین نے بیان کیا، اسے کون "مائی کا لال "ضعیف کہہ سکتا ہے؟"

جب ناراضی کی اصل وجہ ختم ہوئی تو شیعہ کا اعتراض بھی ختم ہو گیا۔

فضیل بن مرزوق الرقاشی الکوفی (صدوق شیعی ،وثقہ الجمہور )سے روایت ہے کہ(امام ) زید بن حسین بن علی بن ابی طالب(رحمہ اللہ )نے فرمایا:

"أَمَّا أَنَا فَلَوْ كُنْتُ مَكَانَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَحَكَمْتُ بِمِثْلِ مَا حَكَمَ بِهِ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي فَدَكٍ "

"اگر میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی جگہ ہوتا تو فدک کے بارے میں اسی طرح فیصلہ کرتا جس طرح ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فیصلہ کیا تھا۔

(السنن الکبری للبیہقی 6/302)کتاب الاعتقاد لہ ص497دلائل النبوۃ للبیہقی 7/281ح3338فضائل الصحابہ للدارقطنی 46وسندہ حسن)

فضیل بن مرزوق تک سند صحیح ہے اور جمہور کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے صدوق حسن الحدیث راوی ہیں۔

امام ابو جعفر محمد بن علی بن الحسین الباقر رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"يَعْرِفْ فَضْلَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَدْ جَهِلَ السُّنَّةَ"

"جس شخص کو ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے فضائل معلوم نہیں تو وہ شخص سنت سے جاہل ہے۔(کتاب الشریعہ للا جری ص851ح1803وسندہ حسن)

اور انھوں نے اپنی بیماری کی حالت میں فرمایا:

"اللهم إني أتولى أبا بكر وعمر وأحبهما، اللهم إن كان في نفسي غير هذا، فلا نالتني شفاعة محمد صلى الله عليه وسلم يوم القيامة"

"اے اللہ! میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو اپنا ولی مانتا ہوں اور ان دونوں سے محبت کرتا ہوں،اے اللہ! اگر میرے دل میں اس کے خلاف کوئی دوسری بات ہو تو قیامت کے دن مجھے محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کی شفاعت نصیب نہ ہو۔(تاریخ دمشق ابن عساکر 57/223وسندہ حسن)

امام جعفر بن محمد الصادق  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"بَرِئَ اللَّهُ مِمَّنْ تَبَرَّأَ مِنْ أَبِي بَكْرٍ"

"اللہ اس شخص سے بری ہے جو شخص ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )سے بری ہے۔(فضائل الصحابہ للا مام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  1601ح 143وسندہ صحیح)

سیدنا ابو الطفیل عامر بن واثلہ اللیثی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  فوت ہوئے تو فاطمہ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا  ) نے ابو بکر ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کو بلایا (اور فرمایا: )

"أَنْتَ وَرِثْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَمْ أَهْلُهُ ؟"

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے وارث آپ ہیں یا آپ کے گھر والے؟انھوں نے جواب دیا۔(میں)نہیں بلکہ آپ کے گھر والے ہیں۔

فاطمہ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا  ) نے فرمایا:پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے مال غنیمت والا حصہ کہاں ہے؟تو ابوبکر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )نے فرمایا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا:

"إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَطْعَمَ نَبِيًّا طُعْمَةً ، ثُمَّ قَبَضَهُ إِلَيْهِ جَعَلَهُ لِلَّذِي يَقُومُ بَعْدهُ "

"بے شک اللہ تعالیٰ جب اپنے نبی کو(مال غنیمت میں سے )کچھ نصیب فرماتا ہے، پھر اس نبی کی روح قبض کر لیتا ہے تو اسے ان کے جانشین کے کنٹرول میں دے دیتا ہے۔"

میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس مال کو تمام مسلمانوں میں تقسیم کردوں۔

فاطمہ ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا  ) نے فرمایا: "پس آپ اور جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنا ہے زیادہ جانتے ہیں۔(مسند احمد 1/14وسندہ حسن)

بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  کی روایت میں یہ اضافہ ہے۔"ثم رجعت"پھر(فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  )واپس چلی گئیں۔(السنن الکبری 6/303وسندہ حسن)

یہ روایت بہت زیادہ مختصر ہے اور صحیح بخاری وغیرہ کی احادیث کے ساتھ ملا کر اس کا یہ مطلب بنتا ہے اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی کوئی وراثت ہوتی تو آپ کے اہل (بیویاں اور بیٹیاں)سب سے زیادہ اس کی وارث ہوتیں تاہم اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  نے رجوع کر لیا تھا، لہٰذا ناراضی ختم ہو گئی۔

2۔آپ نے جس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے غالباً وہ درج ذیل روایت ہے:

"فقد روى الحافظ أبو بكر البيهقي بإسناده إلى إسماعيل بن أبي خالد عن الشعبي قال: (لما مرضت فاطمة أتاها أبو بكر الصديق فاستأذن عليها فقال علي: يا فاطمة هذا أبو بكر يستأذن عليك فقالت: أتحب أن آذن له؟ قال: نعم! فأذنت له فدخل عليها يترضاها فقال: والله ما تركت الدار والمال والأهل والعشيرة إلا ابتغاء مرضات الله ومرضات رسوله ومرضاتكم أهل البيت ثم ترضاها حتى رضيت("

 (السنن الکبری للبیہقی 6/30وقال "ھذا مرسل حسن باسناد صحیح "کتاب الاعتقادللبیہقی ص496دلائل النبوۃ 7/28ح3337۔طبقات ابن سعد 8/27)

اس روایت کی سند دو وجہ سے ضعیف ہے۔

1۔اسماعیل بن ابی خالد ثقہ ہونے کے ساتھ مدلس راوی ہیں۔

حاکم نیشاپوری نے انھیں مدلس کہا: (المدخل الی الاکلیل ص46)

انھیں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  (طبقہ ثانیہ) علائی ابو زرعہ رحمۃ اللہ علیہ  ابن العراقی رحمۃ اللہ علیہ  ،حلبی  رحمۃ اللہ علیہ ، ابو محمود المقدسی رحمۃ اللہ علیہ  اور سیوطی رحمۃ اللہ علیہ  نے مدلسین میں شمار کیا:

(طبقات المدلسین 36/2،جامع التحصیل ص105کتاب ابی زرعہ ابن العراقی :3حلبی ص14)

امام عجلی  رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی توثیق کے بعد فرمایا:

"ربما أرسل الشيء عن الشعبي فإذا وقف أخبر .... "

"وہ بعض اوقات یا اکثر اوقات شعبی سے مرسل روایتیں بیان کرتے (یعنی تدلیس کرتے تھے)پھر جب انھیں روکا جاتا تو (اصل راوی کا نام ) بتا دیتے تھے۔(تاریخ الاسلام للذہبی 9/28الثقات یعنی تاریخ العجلی :87)

اس قول میں تدلیس پر ارسال کا لفظ لغوی طور پر استعمال ہوا ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ امام عجلی رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک اسماعیل بن ابی خالد  رحمۃ اللہ علیہ  امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ  سے بعض اوقات یا اکثر اوقات تدلیس کرتے تھے۔

2۔یہ سند مرسل یعنی منقطع ہے:

بطور فائدہ عرض ہے کہ مسند احمد کی ایک روایت میں آیا ہے کہ فاطمہ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا  )ابوبکر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کے پاس تشریف لے گئیں تو فرمایا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بتایا تھا کہ میں آپ کی اہل میں سے سب سے پہلے سے جاملوں گی۔

(ج6ص283،موسوعہ حدیثیہ 44/19ح26420رحماء بینہم لحمد نافع ج1ص134)

اس کی سند منقطع ہے۔ جعفر بن عمرو بن امیہ نے نہ تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا زمانہ پایا اور نہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی وفات کے وقت وہ موجود تھے۔

فقرہ نمبر1۔کے تحت مسند احمد(1/4ح14)والی حدیث سے یہ ظاہر ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پر اعتراض سے رجوع کر لیا تھا۔ یعنی ان کا راضی ہو جا نا صحیح ہے لہٰذا ناراضی والی روایت منسوخ ہے۔ واللہ اعلم۔

3۔یہ توصحیح ہے کہ سیدنا مولانا علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو امیر معاویہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے دور میں(بنو اُمیہ کی طرف سے)سب کیا جاتا تھا ،یعنی برا بھلا کہا جاتا تھا لیکن خود سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے یہ سب وستم کہنا ثابت نہیں۔

اس سلسلے میں ریاض النضرۃ نامی کتاب کی روایت بے سند و بے حوالہ ہے۔

صحیح مسلم وغیرہ میں "أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا "کے الفاظ ہیں یعنی معاویہ بن ابی سفیان نے سعد کو حکم دیا تھا۔(ترقیم دارالسلام :6220)

کیا حکم دیا تھا؟ اس کی صراحت کہیں نہیں اور عین ممکن ہے کہ مجلس میں یہ حکم دیا ہو کہ میرے قریب آکر بیٹھ جائیں۔

محمد بن خلیفہ الو شتابیالابی اور قاضی عیاض المالکی کی عبارات میں یہ صراحت موجود ہے کہ اس روایت میں یہ صراحت نہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے سب وشتم کا حکم دیا تھا۔(اکمال اکمال المعلم 8/228،اکمال المعلم 7/415)

ریاض النضرۃ والی روایت تو باطل و مردود ہے۔

ابو العباس احمد بن عبد اللہ بن محمد محب الدین الطبری المکی (م694ھ)کی کتاب ریاض النضرۃ ایک غیر مستند اور ناقابل حجت کتاب ہے، الایہ کہ کسی خاص روایت کی تحقیق کر کے اس کا صحیح یا حسن ہونا ثابت ہو جائے۔

بے سند کتابوں کے بجائے اصل اور باسند کتابوں کی طرف رجوع کرنا اور پھر ہر روایت کی تحقیق کر کے صحیح و ثابت سے استدلال کرنا ہی ضروری ہے۔

4۔البدایہ والنہایہ والی یہ روایت تاریخ دمشق لا بن عساکر (42/119)میں بحوالہ تاریخ ابی زرعہ عبدالرحمٰن بن عمر والدمشقی موجود ہے:

اس روایت کی سند تین وجہ سے ضعیف و مردود ہے:

1۔محمد بن اسحاق بن یسار صدوق مدلس ہیں اور سند میں سماع کی تصریح نہیں۔

2۔عبد اللہ ابن ابی کیجح ثقہ مدلس ہیں اور یہ سند عن سے ہے۔

ذکرہ ابن حجر فی المدلسین (77/3)

3۔ابو کیجح یسار المکی کی سیدنا سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ملاقات ثابت نہیں یعنی یہ سند منقطع ہے۔

5۔سنن ابن ماجہ(121) اور مصنف ابن ابی شیبہ (12/61ح 32069)والی روایت کی سند درج ذیل ہے:

"عبدالرحمن بن سابط من سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه ...."

اس کی سند کے بارے میں شیخ البانی نے لکھا ہے:قلت:واسنادہ صحیح"

(الصحیحہ 4/335ح1750)

حالانکہ امام یحییٰ بن معین  رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: عبدالرحمٰن بن سابط نے سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے (کچھ)نہیں سنا۔(تاریخ ابن معین :365کتاب المراسل لا بن ابی حاتم ص128فقرہ : 459)

یعنی یہ سند منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے اور اس منقطع روایت کو"واسنادہ صحیح"کہنا بہت عجیب و غریب ہے۔

تنبیہ :راقم الحروف نے سنن ابن ماجہ کی اس روایت کو منقطع قرار دینے کے بعد شواہد کی وجہ سے"صحیح " قراردیا تھا حالانکہ شواہد می"فنال منہ " کا نام و نشان تک نہیں لہذایہ روایت صحیح نہیں بلکہ ضعیف ہے اور اس روایت کے بارے میں سنن ابن ماجہ کی سابقہ تحقیق منسوخ ہے۔

اس بارے میں روایت کے ضعیف ثابت ہونے کے بعد شیخ سندھی کی تشریح (ج1ص58)کی کوئی حیثیت نہیں:

ابن عبدربہ الاندلسی(328ھ)کی کتاب العقد الفرید(3/300،دوسرا نسخہ 5/115،شاملہ )والی روایت بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے:

یہ ساری کتاب (العقد الفرید )مشکوک وناقابل اعتبار ہے:(نیز دیکھئے کتب حذرمنہا العلماء ج 2ص44،45)

6۔مسند احمد (6/323ح 26748)کی روایت درج ذیل ہے:

"حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللهِ الْجَدَلِيِّ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ، فَقَالَتْ لِي: أَيُسَبُّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ؟ قُلْتُ: مَعَاذَ اللهِ، أَوْ سُبْحَانَ اللهِ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ سَبَّ عَلِيًّا، فَقَدْ سَبَّنِي "

 (نیز دیکھئے المستدرک 3/121،مصنف ابن ابی شیبہ 12/76۔77المعجم الکبیر للطبرانی 23/322،323ح737)

اس سند میں ابو اسحاق عمرو بن عبد اللہ السبیعی مشہور ثقہ مدلس ہیں اور سند عن سے ہے:لہٰذا ضعیف ہے۔

مسند ابی یعلیٰ (12/444۔445۔ح7013)اور المعجم الکبیر (23/323ح738) کی روایت کی سند درج ذیل ہے:

"عَنْ عِيسَى بن عبد الرحمن البجلي من بجيلة مِنْ سُلَيْمٍ عَنِ السُّدِّيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الله البجلي قال: ((قالت لي أم سلمة...))"

اس کے بارے میں حسن سلیم اسد نے لکھا ہے:

"رجاله ثقات إلا أنه- عندي- منقطع، ما علمت رواية لإسماعيل بن عبدالرحمن السدي عن أبي عبدالله الجدلي فيما اطلعت عليه"

یعنی یہ سند شبہ انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے:

ان دونوں روایتوں میں سیدنا معاویہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی طرف سے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو گالیاں دینے کی صراحت موجود نہیں:

7۔العبر فی خبر من غبر للذہبی (1/35وفیات 41ح) والی روایت مکمل سند نہ ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔نیز مذکورہ سند کا راوی مجالدبن سعید الہمدانی بھی عند الجمہور ضعیف ہے۔

8۔ابو الفاء (م732ھ)کی بے سند تاریخ (المختصر فی اخبار البشر 1/183)کی روایت بھی بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

9۔البدایہ والنہایہ(8/17) کی روایت بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

10۔تاریخ دمشق لا بن عساکر (13/264)کی سند میں مجالد بن سعید ضعیف راوی ہے:

حافظ نور الدین الہیثمی  رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:وضعفہ  الجمہور "(مجمع الزوائد 9/416)

اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ شیعہ کی پیش کردہ روایات کا بڑا حصہ ضعیف بے سندومردود ہے اور صحیح روایات  سے وہ مسئلہ ثابت نہیں ہوتا جو وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں:

ہم پر یہ ضروری ہے کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے محبت کریں اور ان کے بارے میں کسی قسم کی زبان درازی نہ کریں بلکہ احتیاط کریں۔

وما علینا الا البلاغ ۔(11/شوال1433ھ بمطابق 30/اگست2012ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔اصول ،تخریج الروایات اور ان کا حکم-صفحہ196

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ