سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(16) کیا اللہ عرش پر ہے؟

  • 21269
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 4208

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محترم حافظ صاحب! کیااللہ عرش پر ہے؟اگر ہے تو اس کے دلائل قرآن وحدیث سے واضح کردیں۔جزاکم اللہ خیرا (ملک عطاء الرحمٰن ،درہ،خانپور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کے سوال کا جواب ایک مضمون کی صورت میں درج ذیل ہے:

مسئلۃ استواء الرحمٰن علی العرش

قرآن مجید کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ نےفرمایا:

﴿إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذى خَلَقَ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَرضَ فى سِتَّةِ أَيّامٍ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَرشِ ...﴿٥٤﴾... سورة الاعراف

"بے شک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ،پھر عرش پر مستوی ہوا۔"

(نیزدیکھئےسورۃیونس،3الرعد۔3طہٰ:5۔الفرقان۔59السجدۃ۔4۔الحدید 4۔استویٰ کا مطلب ہے ارتفع،علا،یعنی بلند ہوا ہے،دیکھئے صحیح بخاری کتاب التوحید اور تحقیقی مقالات 1/13۔14)

﴿ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ ﴾"اس کا عرش پانی پر تھا۔"(ھود:7)

(نیز دیکھئے التوبۃ:129الانبیاء،22،المومنون،116،86 النمل،26 المومن،7،15 الزخرف،82 البروج،15)

3۔ ﴿وَيَحمِلُ عَرشَ رَبِّكَ فَوقَهُم يَومَئِذٍ ثَمـٰنِيَةٌ ﴿١٧﴾... سورةالحاقة

"اور اس دن آپ کے رب کا عرش اپنے اوپر اُٹھائیں گے آٹھ(فرشتے)"(الحاقۃ:17 نیز دیکھئے الزمر:75)

4۔ ﴿ءَأَمِنتُم مَن فِى السَّماءِ أَن يَخسِفَ بِكُمُ الأَرضَ فَإِذا هِىَ تَمورُ ﴿١٦﴾... سورةالملك

"کیا تم اس سے بے خوف ہو جوآسمان میں(یعنی اوپر) ہے کہ وہ تمھیں زمین میں دھنسا دے،پھر وہ تیزی کے ساتھ ہلنے لگ جائے۔"

(الملک:16 نیز دیکھئے الملک :17،القصص:38،المومن:36۔37بنی اسرائیل۔42 ،الانعام،18،61 النحل ،56 البقرۃ،144)

5۔﴿وَما قَتَلوهُ يَقينًا ﴿١٥٧ بَل رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيهِ وَكانَ اللَّهُ عَزيزًا حَكيمًا ﴿١٥٨﴾... سورة النساء

"اور انھوں نے یقیناً اسے قتل نہیں کیا(یعنی عیسیٰ علیہ السلام  کو) بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھالیا اور اللہ غالب حکمت والاہے۔"

(النساء:157۔158 نیزدیکھئے آل عمران55،اس پر امت کا اجماع ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام  آسمان پر اٹھا لیےگئے تھے اور وہ آسمان میں زندہ ہیں۔آسمان سے اتریں گے اور دجال کو قتل کردیں گے۔دیکھئے تحقیقی مقالات1/87)

6۔﴿يُدَبِّرُ الأَمرَ مِنَ السَّماءِ إِلَى الأَرضِ ثُمَّ يَعرُجُ إِلَيهِ فى يَومٍ كانَ مِقدارُهُ أَلفَ سَنَةٍ ...﴿٥﴾... سورةالسجدة

"آسمان سے زمین تک تدبیر امور کرتاہے  پھر وہ(امر) اس کی طرف چڑھتا ہے ایک دن میں(کہ) جس کی مقدار ہزار سال ہے۔"

7۔﴿ إِلَيهِ يَصعَدُ الكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالعَمَلُ الصّـٰلِحُ يَرفَعُهُ ...﴿١٠﴾... سورة الفاطر

"اسی کی طرف چڑھتی ہیں پاکیزہ باتیں اور صالح عمل وہی اسے(بھی) اوپر اٹھاتا ہے"

8۔ ﴿وَجاءَ رَبُّكَ وَالمَلَكُ صَفًّا صَفًّا ﴿٢٢﴾... سورةالفجر

"آپ کا رب آئے گا اور فرشتے صف بہ صف۔"

9۔ ﴿ لَيسَ كَمِثلِهِ شَىءٌ وَهُوَ السَّميعُ البَصيرُ ﴿١١﴾... سورةالشورىٰ

"اس جیسا کوئی بھی نہیں ہے اور وہ سننے ،دیکھنے والا ہے۔"

احادیث کی روشنی میں

1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک لونڈی سے پوچھا((أين الله؟)) اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟اس نے جواب دیا:( فِي السَّمَاءِ) آسمان پر ہے ۔آپ نے پوچھا:میں کون ہوں؟اس نے کہا:آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اُس لونڈی کے مالک سے  فرمایا:(أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ)اسے آزاد کردو کیونکہ یہ ایمان والی ہے۔(صحیح مسلم :537،ترقیم دارالسلام  :1199)

2۔جابر بن عبداللہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یوم عرفہ کے خطبہ میں فرمایا:" کیا میں نے پہنچادیا ہے؟"تو صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے جواب دیا:جی ہاں۔آپ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور فرمایا:"اے اللہ! گواہ رہ۔"(صحیح مسلم 1/397 ح1218)

3۔عبداللہ بن عمرو بن العاص  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمُ الرَّحْمَنُ، ارْحَمُوا مَنْ فِي الأَرْضِ يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ"

"رحم کرنے والوں پر رحمٰن فرماتا ہے ،تم زمین والوں پر رحم کروتم پر جو آسمان میں(اوپر) ہے رحم فرمائے گا"

(رواہ الترمذی 2/14 وقال ھذا حدیث حسن صحیح وصححہ الحاکم 4/159 ووافقہ الذھبی وسندہ حسن)

4۔ابوسعید  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"أَلَاتَأْمَنُونِي وَأَنَا أَمِينُ مَنْ فِي السَّمَاءِ يَأْتِينِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً"

"کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے اور میں اس کا امین ہوں جو آسمان میں ہے۔میرے پاس صبح وشام آسمان کی خبریں آتی ہیں۔" (صحیح بخاری 2/624 وصحیح مسلم 1/341ح1064)

5۔ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:" مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!جو مرد اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلاتاہے،پھر وہ انکار کر دیتی ہے تو وہ آسمان میں ہے اس عورت پر ناراض ہوجاتا ہے جب تک مرد ا سے راضی نہ ہوجائے۔"(صحیح مسلم 1/464ح1436)

6۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا....."

"ہمارا رب تبارک وتعالیٰ ہر رات دنیا کے آسمان پر نازل ہوتا(اترتا) ہے۔"

(موطا امام مالک ص 197 واللفظ لہ ،صحیح بخاری 2/1116 ح1145صحیح مسلم 1/258 ح758 یہ حدیث متواتر ہے)

7۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:"(نیک روح سے) کہاجاتا ہے:

"مَرْحَبًا بِالنَّفْسِ الطَّيِّبَةِ" "پاکیزہ نفس خوش آمدید"

"فَلَا يَزَالُ يُقَالُ لَهَا حَتَّى يُنْتَهَى بِهَا إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي فِيهَا اللهُ عَزَّ وَجَلَّ" (مسند احمد 2/264 وسندہ صحیح)

"اسی طرح کہا جاتاہے حتیٰ کہ اس روح کو اس آسمان تک پہنچا دیا جاتاہے جس میں اللہ تعالیٰ ہے۔"

8۔اور فرمایا:

"أَنَّ اللَّهَ لَمَّا قَضَى الْخَلْقَ كَتَبَ عِنْدَهُ فَوْقَ عَرْشِهِ أَنَّ رَحْمَتِي سَبَقَتْ غَضَبِي "

"جب الله نے  تخلیق پوری کردی تو ا پنے پاس عرش کے اوپر(ایک کتاب میں) لکھ کر رکھ دیا کہ میری رحمت میرے غضب  پر غالب ہے ۔"(صحیح بخاری 2/1104 ح7422 واللفظ لہ صحیح مسلم 2/356ح2751)

9۔نیز فرمایا:

"قَالَ : النَّاسُ يَصْعَقُونَ يَوْمَ القِيَامَةِ ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ ، فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى آخِذٌ بِقَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ العَرْشِ "

"قیامت کے دن سب بے ہوش ہوجائیں گے(پھر  میں سب سے پہلے ہوش میں آؤں گا) تو دیکھو گا کہ موسیٰ علیہ السلام  عرش کے پایوں میں سے ایک پایہ پکڑے کھڑے ہیں (یعنی وہ مجھ سے پہلےہوش میں آجائیں گے۔)"

(صحیح بخاری 2/1104 ح7427،واللفظ لہ،صحیح مسلم:2/267ح2373)

10۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  فرمایا:

"فرجع إلى ربه فقال : أرسلتني إلى عبد....."

"پھر وہ(موت کافرشتہ) اپنے رب کی طرف واپس گیا اور کہا:تو نے مجھے اپنے بندے (موسیٰ علیہ السلام ) کی طرف بھیجا۔"(صحیح بخاری:1339،3407،صحیح مسلم:2372)

آثار صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین

1۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  فوت ہوئے تو امیر المومنین سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے خطبہ دیا:جو محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کی عبادت کرتا تھا تو وہ جان لے کہ بلاشبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  فوت ہوچکے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ اللہ آسمان میں زندہ ہے اس پر موت نہیں آئے گی۔(الرد علی الجھمیۃ للدارمی ص 78 وسندہ حسن التاریخ الکبیر 1/201۔202)

2۔ام المومنین سیدہ زینب بنت حجش  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   دوسری ازواج النبی  صلی اللہ علیہ وسلم  پر فخر کرتے ہوئے فرمایا کرتی تھیں۔"

"وَزَوَّجَنِي اللَّهُ تَعَالَى مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمَوَاتٍ"

"مجھے اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیوی بنایا ہے۔(صحیح بخاری:7420)

3۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے کہا:اللہ نے آپ کی براءت سات آسمانوں کے اوپر سے نازل کی ہے۔(طبقات ابن سعد8/70 وسندہ حسن واصلہ فی صحیح البخاری 2/669)

4۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:آسمان دنیا اور دوسرے آسمان کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے اور ہر آسمان کے درمیان پانچ سوسال کا فاصلہ ہے۔ساتویں آسمان اور کرسی کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے اور کرسی اور پانی کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے۔کرسی پانی کے اوپر ہے اور اللہ کرسی کے اوپر ہے اور وہ تمہارے اعمال جانتاہے۔(کتاب التوحید لابن خذیمۃ 1/244وسندہ  حسن)

5۔سلمان  فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:بے شک اللہ حیا فرماتا ہے جب بندہ اس کی طرف ہاتھ پھیلاتاہے کہ انھیں  خالی لوٹادے۔

(رواہ الحاکم فی المستدرک 1/497 وصححہ علی شرط الشیخین ووافقہ الذھبی یہ حدیث مرفوعاً بھی صحیح ثابت ہے،دیکھئے ابوداود 1488 الترمذی 3556 ابن  ماجہ 3865)

6۔ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے فرمایا:اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر سے جانتاہے کہ میں عثمان کے قتل کو پسند نہیں کرتی تھی۔(رواہ الدارمی فی الرد علی الجھمیۃ ص27 وقال الالبانی:واسنادہ صحیح/مختصر العلو ص 104)

اس پر صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  وتابعین  رحمۃ اللہ علیہ  کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ سات آسمانوں سے اوپر عرش پر مستوی ہے۔(جس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں) اس کے خلاف صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  وتابعین رحمۃ اللہ علیہ  سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے۔

جہمیہ کے شبہات اور ان کے جوابات

بعض لوگ کہتے ہیں:

﴿هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا﴾

 " وہ ان کے ساتھ ہے وہ جہاں بھی ہوں۔(المجادلۃ:7)

اسی طرح وہ آیت کہ ہم شاہ رگ سے زیادہ قریب ہیں۔(ق:16)

ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ اس معیت کا مفہوم اللہ تعالیٰ کاعلم ہےاسی بات پر صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  وتابعین  رحمۃ اللہ علیہ  کااجماع ہوچکاہے۔(توحید خالص ص 276الرد علی الجہمیہ ص 19 شرح حدیث النزول ص 74)

دوسرے یہ کہ ان آیات میں خود علم کا(نعلم ،یعلم وغیرہ) ذکر ہے۔جواس بات کی قوی دلیل ہے کہ یہ معیت بالعلم ہے۔

تیسرے یہ کہ دیگر آیات،صحیح احادیث اور اجماع صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  ان آیات کے عموم کی تخصیص کرتاہے۔

یاد رہے کہ قرآن وحدیث میں یہ کہیں بھی نہیں ہے کہ اللہ ہرجگہ(اپنی ذات کے ساتھ)موجودہے۔ "تعالى الله عن ذلك علوا كبيرا" اور اللہ کے لیے "حاضر" کا لفظ قرآن وحدیث اور اجماع سے قطعاً ثابت نہیں ہے۔

عقلی دلائل

1۔لوگ دعا کرتے وقت ہاتھ اوپر اٹھاتے ہیں۔

2۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  معراج کی رات آسمانوں پر اللہ کے پاس گئے تھے۔

3۔فرشتے آسمانوں سے زمین پر اترتے ہیں اور زمین سے آسمانوں پر جاتے ہیں اور اللہ ان سے اپنے بندوں کے  بارے میں سوال کرتا ہے،حالانکہ وہ خود سب سے زیادہ جانتا ہے۔

4۔خالق اپنی مخلوق سے جداہے۔

تنبیہ:۔

اس موضوع پر سیر حاصل بحث کے لیے دیکھئے مقالات(1/13) اور فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام(1/29تا55) وغیرہ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔توحید و سنت کے مسائل-صفحہ64

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ