سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(11) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض غیب کی اطلاع

  • 21264
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2284

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو دی گئی غیبی خبریں اورعلم غیب سے متعلق علمائے اہل سنت کاموقف کیا ہے؟(ایک سائل)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿قُل لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَرضِ الغَيبَ إِلَّا اللَّهُ...﴿٦٥﴾... سورةالنمل

"کہہ دیجئے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے الغیب نہیں جانتا مگر اللہ جانتاہے۔(النمل:65)

اس آیت کریمہ کی تشریح میں امام ابن جریر الطبری  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم  سے فرماتا ہے کہ اے محمد!( صلی اللہ علیہ وسلم ) قیامت کے بارے میں پوچھنے والے مشرکین سے جو کہتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی؟کہہ دو!اللہ نے جو علم اپنے پاس رکھا ہے اور مخلوق سے اُسے چھپادیاہے اُس الغیب کو آسمانوں اور زمین میں کوئی نہیں جانتا اور قیامت بھی اسی(الغیب) میں سے ہے۔(تفسیر طبری ج 20 ص5)

اس آیت کریمہ سے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے استدلال کرکے فرمایا:

"وَمَنْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَى اللَّهِ الْفِرْيَةَ"

"اور جس نے دعویٰ کیاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  جانتے تھے جوکل ہوگا تو اس نے اللہ پر بڑا افتراء باندھا،یعنی بہت بڑا جھوٹ بولا۔(کتاب التوحید لابن خزیمہ ص223 ح324 وسندی صحیح المستخرج لابی نعیم الاصبہانی 1/242 ح442 وسندہ صحیح صحیح ابی عوانہ ج1ص 154 ح 304)

معلوم ہوا کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی عالم الغیب ہے،نیز اُس کاعلم ہر وقت ہر چیز کو محیط ہے، وہ: "جميع ماكان وجميع مايكون" کا علم جانتا ہے اور کوئی چیز بھی اُس کے علم سے باہر نہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"عن ابن عمر - رضي الله عنهما - عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: ( مفاتيح الغيب خمس لا يعلمها إلا الله، لا يعلم ما تغيض الأرحام إلا الله، ولا يعلم ما في غد إلا الله، ولا يعلم متى يأتي المطر أحد إلا الله، ولا تدري نفس بأي أرض تموت إلا الله، ولا يعلم متى تقوم الساعة إلا الله (

"غیب کی پانچ چابیاں ہیں جنھیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا:کل کیاہوگا؟اسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا،ارحام میں کیا پوشیدہ ہے؟اسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اوراللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب ہوگی،کسی جاندار کو یہ معلوم نہیں کہ زمین کے کس(حصے پر) اُس کی موت آئے گی اور اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا کہ قیامت کب آئےگی۔"(صحیح بخاری:4697)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے  روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"أُوتِيتُ مَفَاتِيحَ كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا الْخَمْسَ"

"مجھے ہر چیز کی چابیاں دی گئی ہیں سوائے پانچ کے۔"

پھر آپ نے سورہ لقمان (آیت:34) کی تلاوت فرمائی۔

(مسند احمد 2/85ح5579 وسندہ صحیح المعجم الکبیر للطبرانی 12/360۔361 ح13344)

تنبیہ:۔

شیخ محمد ناصر الدین الالبانی  رحمۃ اللہ علیہ  کو بڑی غلطی لگی ہے کہ انھوں نے ذکر اور عدمِ ذکر والے فلسفے کی رُو سے اس حدیث کو"شاذ اولہ" قرار دے کراپنے سلسلہ ضعیفہ(7/348ح 3335) میں نقل کردیا۔

جبکہ اُن کے برعکس شیخ احمد محمد شاکر المصری  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس حدیث کے بارے میں فرمایا:"اسنادہ صحیح" اس کی سند صحیح ہے۔(المسند بتحقیق احمد شاکر 7/276)

اس حدیث سے دو باتیں صاف ثابت ہیں:

1۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو پانچ چیزوں کی چابیاں نہیں دی گئیں۔

2۔ان پانچ چیزوں کے علاوہ ہر چیز کی چابیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو دے دی گئیں۔

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:

"أُوتِيَ نَبِيّكُمْ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَفَاتِيح كُلّ شَيْء غَيْر خَمْس "

"آپ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو پانچ کے علاوہ سب چابیاں عطا کی گئیں۔

پھر انھوں نے سورہ لقمان(آیت:34) کی تلاوت فرمائی۔

(مسند احمد 1/386 وسندہ حسن،مسند الحمیدی بتحقیقی :125 وقال ابن کثیر:"وھذا اسناد حسن "الخ)

اس حدیث کے راوی عبداللہ بن سلمہ جمہور محدثین کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے صدوق حسن الحدیث ہیں۔(دیکھئے مسند الحمیدی بتحقیقی کاحاشیہ ح57)

عمرو بن مرہ کی روایت کی وجہ سے یہ حدیث عبداللہ بن سلمہ کے اختلاط سے پہلے کی ہے اس سلسلے میں مفصل دلائل کے لیے کتب حدیث کی طرف ر جوع فرمائیں۔ایک آیت کریمہ کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر الدمشقی  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:"بے شک اللہ سارا(کُل کا کُل) غیب جانتا ہے۔۔۔(تفسیر بن کثیر4/403 الانبیاء علیہ السلام  110)

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے فرمایا:

﴿قُل لا أَملِكُ لِنَفسى نَفعًا وَلا ضَرًّا إِلّا ما شاءَ اللَّهُ وَلَو كُنتُ أَعلَمُ الغَيبَ لَاستَكثَرتُ مِنَ الخَيرِ وَما مَسَّنِىَ السّوءُ ... ﴿١٨٨﴾... سورةالاعراف

"کہہ دیجئے !میں اپنی جان کے لیے نفع اور نقصان کا مالک نہیں مگر جو اللہ تعالیٰ چاہے اور اگر میں الغیب جانتا تو بہت سی خیر جمع کرلیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔"(الاعراف:188)

امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ  نے لکھا ہے:اگر میں وہ جانتا جو ہونے والاہے اور ابھی تک نہیں ہوا تو خیر کثیر اکھٹی کرلیتا۔(تفسیر طبری 5/590 طبع دارالحدیث القاہرہ)

اب سوال یہ ہے کہ کیا انبیاء علیہ السلام  اور رسول بھی اللہ تعالیٰ کی اطلاع اوروحی سے بعض غیب جانتے تھے؟تو اس کے جواب سے پہلے جلیل القدر مفسرین کرام اور علمائے عظام کے دس(10) حوالے پیش خدمت ہیں:

1۔اہل سنت کے مشہور ثقہ  امام ابو جعفر محمد بن جریر یزید الطبری  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 310ھ) نے سورۃ الجن(آیت:26۔27)کی تفسیر میں فرمایا:

"فَلَا يُظْهِر عَلَى غَيْبه أَحَدًا , فَيَعْلَمهُ أَوْ يُرِيه إِيَّاهُ إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُول , فَإِنَّهُ يُظْهِرهُ عَلَى مَا شَاءَ مِنْ ذَلِكَ"

پس وہ اپنے غیب پر کسی کومطلع نہیں کرتا ،تاکہ وہ اسے جان لے یا دیکھ لے ،سوائے رسول کے جس پر وہ راضی ہے تو اُسے اس میں سے جو چاہے اطلاع دے دیتا ہے۔(تفسیر طبری ج29 ص76)

2۔امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ  سے تقریباً دو صدیاں پہلے مفسر قرآن امام قتادہ رحمۃ اللہ علیہ  بن دعامہ البصری  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 117ھ) نے فرمایا:

"(إِلا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ ) فإنه يظهره من الغيب على ما شاء إذا ارتضاه"

"سوائے جس دل پر وہ راضی ہو،تو اسے غیب میں سے جو چاہتا ہے بتا دیتاہے۔اگراُس(یعنی اللہ تعالیٰ) کی رضا مندی ہو۔(تفسیر ابن جریرالطبری 29/77وسندہ صحیح)

3۔امام ابومحمد حسین بن مسعود البغوی الفرء  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 516ھ) نے سورہ آل عمران (آیت:179)کی تفسیر میں فرمایا:

"فيطلعه على بعض الغيب"

پس وہ(اللہ) اسے(اپنے رسول کو) بعض علم غیب پر مطلع فرماتاہے۔(تفسیر بغوی ج1ص 378)

امام بغوی  رحمۃ اللہ علیہ  کی اس تفسیر سے صاف ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کو غیب (کی خبروں) میں سے بعض کا علم عطا فرمایا تھا۔

4۔امام ابوالحسن علی بن احمد الواحدی النیسابوری  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 468ھ) نے فرمایا:

"والمعنى: أن من ارتضاه للرسالة أطلعه على ما شاء من غيبه"

"اور معنی یہ ہے کہ جسے وہ  رسالت اور نبوت کے لیے چن لے تو اُسے اپنے غیب میں سے جس پر چاہے اطلاع دے دیتا ہے۔(الوسیط فی تفسیر القرآن المجید 4/369،الجن:26۔27)

6۔قاضی ابوبکر محمد بن عبداللہ عرف ابن العربی المالکی(متوفی 543ھ) نے منافقین کا ردکرتے ہوئے فرمایا:

"وأن الله يطلعه على ما شاء من غيبه "

"اور بے شک اللہ اسے(سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کو) اپنے غیب میں سے جو چاہے اطلاع دے دیتا ہے۔(احکام القرآن 2/1033،التوبہ:127)

7،۔ابوعبداللہ محمد بن احمد القرطبی الانصاری(متوفی 671ھ) نے فرمایا:

"فإنه يظهره على ما يشاء من غيبه، لأن الرسل مؤيدون بالمعجزات ومنها الإخبار عن بعض الغائبات"

"پس وہ انھیں اپنے غیب میں سے جو  چاہے اطلاع دیتا ہے،کیونکہ رسولوں کی معجزات کے ساتھ تائید کی گئی اور ان(معجزات) میں سے بعض غیبوں کی خبردینا(بھی)ہے۔(تفسیر قرطبی 19/27۔28،الجن :26۔27)

نیزدیکھئے تفسیر قرطبی(ج8 ص 299،التوبہ:127)

8۔امام ابوحیان محمد بن یوسف الاندلسی(متوفی 745ھ) نےفرمایا:

"فإنه يظهره على ما يشاء من ذلك"

"پس وہ اس(غیب) میں سے جو چاہے،آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اطلاع دے دیتا ہے۔(البحر المیحط ج8 ص 348 ،الجن:26۔27)

9۔حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی 728ھ) نے بعض انبیاء کے بارے میں فرمایا:

"وَمِنْهُمْ مَنْ أَطْلَعَهُ عَلَى مَا شَاءَ مِنْ غَيْبِهِ"

"اور اُن میں سے وہ بھی ہیں جنھیں اُس (اللہ) نے اپنے غیب میں سے بعض پر اطلاع فرمائی۔(مجموع فتاویٰ 28/605)

10۔حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی 751ھ) نے فرمایا:

"(وَلَكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِنْ رُسُلِهِ مَنْ يَشَاءُ) استدراك لما نفاه من اطلاع خلقه على الغيب سوى الرسل، فإنه يطلعهم على ما يشاء من غيبه....."

"اور لیکن اللہ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے چُن لیتا ہے،نفی پر استدراک ہے کہ اللہ اپنی مخلوقات میں سے رسولوں کے سواکسی کو غیب پر اطلاع نہیں دیتا ،پس وہ جو چاہتا ہے اپنے غیب میں سے انھیں اطلاع دے دیتا ہے۔۔۔(زادا لمعادج 3ص 220 فضل فی ذکر بعض الحکم والغایات المحمودۃ...)

مزید تفصیل کے لیے دیکھئے تفسیر بیضاوی(1/195) تفسیر ثعلبی(3/219) ارشاد القاری للقسطلانی(7/186)الدر المصون فی علوم الکتاب المکنون(6/399) جلالین(ص 92) اضواء البیان(2/196) اور التفسیر الصحیح لحکمت البشیر(4/548)  وغیرہ۔

حافظ ابن حجر العسقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے ایک آیت کی تفسیر میں فرمایا:

"فإنه يقتضي إطلاع الرسول على بعض الغيب"

"پس اس کا یہ  تقاضا ہے کہ رسول کو بعض غیب پر اطلاع دی جائے۔(فتح الباری 8/514 تحت ح4778)

آثار سلف صالحین ،آیات کریمہ اور احادیث صحیحہ کا اس مسئلے میں خلاصہ درج زیل ہے:

1۔صرف اللہ ہی عالم الغیب ہے اور یہ اس کی صفت خاصہ ہے جس میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں۔

"جميع ماكان وجميع مايكون"یعنی سارا اور کُلی علم غیب صرف اللہ ہی جانتا ہے ۔

3۔پانچ چیزوں(مثلاً قیامت وغیرہ) کا علم صرف اللہ کے پاس ہے اور مخلوق میں سے کوئی بھی ان پانچ چیزوں کا علم نہیں جانتا۔

4۔رسولوں اور انبیاء علیہ السلام  کوبعض علم غیب کی اطلاع دی گئی تھی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے علم غیب کے بارے میں دو فرقوں کے متضاد نظریات درج ذیل ہیں:

1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  تکمیل قرآن کے بعد"جميع ماكان وجميع مايكون" کا علم باذن اللہ جانتے ہیں ۔یہ بریلویہ رضا خانیہ کا عقیدہ ہے۔

اس نظریے کی کوئی صریح دلیل قرآن ،حدیث ،اجماع اور آثار سلف صالحین سے ثابت نہیں اور نہ تکمیل قرآن کی متعین تاریخ کا علم کسی حدیث یا خبرمیں موجود ہے۔

اس جواب کے شروع میں گزرچکا ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے فرمایا تھا:

اور جس(شخص) نے دعویٰ کیا کہ(سیدنا)محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  جانتے تھے جو کل ہوگا،تو اس نے اللہ پر بڑا افتراء باندھا یعنی بہت بڑا جھوٹ بولا۔(صحیح ابوعوانہ:304)

ام المومنین  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے یہ بات مسروق تابعی رحمۃ اللہ علیہ  کے سامنے  فرمائی تھی،جس سے ثابت ہوا کہ اُن کایہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات اور تکمیل قرآن کے بعد کا ہے۔

2۔بعض لوگ ایک فلسفہ گھڑتے ہیں کہ جو  غیب وحی یا اللہ کی طرف سے اطلاع واخبار کے ذریعے سے معلوم ہوا،اسے غیب نہیں کہتے،لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کسی قسم کا غیب نہیں جانتے تھے بلکہ ایک شخص نے میرے سامنے کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ایک ذرا برابر غیب بھی نہیں جانتے تھے۔(استغفر اللہ۔معاذ اللہ)

یہ بعض مبتدعہ اور جدید متکلمین کا عقیدہ ہے جس کی کوئی دلیل قرآن ،حدیث ،اجماع اور آثار سلف صالحین میں موجود نہیں بلکہ یہ عقیدہ سراسر باطل اور صریح گمراہی ہے۔

بعض آل دیوبند نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے علم کی وسعت کاانکار کیا اور دوسری طرف کہا:

"شیطان وملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی ،فخر عالم کی وسعت علم کی کونسی نص قطعی ہے کہ جس سے تمام نصوص کو رد کرکے ایک شرک ثابت کرتا ہے۔۔۔"(دیکھئے براہین قاطعہ بجواب انوار  ساطعہ ص 55)

عرض ہے کہ شیطان اور ملک الموت کی وسعت علم کے بارے میں نہ کوئی نص قطعی ہے،نہ خبر واحد صحیح اور نہ آثار میں سے کوئی صحیح اثر،لہذا مذکورہ عبارت باطل ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے علم کا شیطان کے باطل علم سے  مقارنہ کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی بہت بڑی توہین ہے۔

بعض آل دیوبند نے جمیع حیوانات وبہائم اور ہر صبی ومجنون کے ساتھ بعض علوم غیبیہ کا انتساب کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے علم سے تشبیہانہ مقابلہ کیا۔

دیکھئے اشرف علی تھانوی کی حفظ الایمان(مع التحریفات ص 116،طبع انجمن ارشاد المسلمین لاہور)

یہ سارا بیان باطل اور صریح گستاخی ہے ان اہل بدعت کے مقابلے میں اہل سنت والجماعۃ(اہلحدیث) کاعقیدہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو جو بعض غیب اللہ تعالیٰ نے بتایا،وہ آپ جانتےتھے اور جو نہیں بتایا وہ نہیں جانتے تھے۔

حافظ ابن عبدالبر الاندلسی  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 463ھ) نے ایک حدیث کی تشریح میں لکھا:

"فيه انه صلي الله عليه وسلم لا يعلم الغيب وانما يعلم منه ما يظهره الله عليه"

"اور اس حدیث میں یہ (فقہ) ہے کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم  غیب نہیں جانتے تھے اور آپ صرف وہ جانتے تھے جو اللہ آپ پر بظاہر فرماتا تھا۔(التہمید لمافی الموطا من المعانی والاسانید ج6 ص251)

ابوالولید الباجی(متوفی 494ھ) نے ایک حدیث کی تشریح میں فرمایا:

"کیونکہ بے شک آپ غیب میں سے نہیں جانتے تھے سوائے اُس کے جس کی آپ کو وحی کے ذریعے سے اطلاع دی گئی تھی۔(المنتقیٰ شرح الموطا 7ص 129 کتاب الاقضیہ باب!)

آخر میں بطور فائدہ اور بطور تنبیہ عرض ہے کہ مخلوق میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا علم سب سے زیادہ ہے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا یہ تکیہ کلام تھا اور وہ کثرت سے فرمایا کرتے تھے کہ"

"الله ورسوله أعلم""یعنی اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ جانتے ہیں"

دیکھئے صحیح البخاری(53،87،425،7447)صحیح مسلم(8،93،17،116)30(143) (2969)(7439) موطا امام مالک(1/192ح452)

عبید بن عمیر بن قتادہ اللیثی  رحمۃ اللہ علیہ  سے روایت ہے کہ ایک دن(سیدنا)عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے کہا:یہ آیت: "أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ "یہ آیت تمہارے خیال میں کس کے بارے میں نازل ہوئی ہے؟تو انھوں نے کہا:"اللہ اعلم"اللہ سب سے زیادہ جانتا ہے۔تو عمر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) غصے ہوئے اور فرمایا :کہوہم جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔۔۔الخ(صحیح بخاری ج2 ص 651 ح4538 فتح الباری ج8 ص202)

یعنی صاف صاف جواب دو۔اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعد"الله ورسوله أعلم"نہیں کہنا چاہیے بلکہ صرف اللہ اعلم کہنا چاہیے۔

مستدرک الحاکم(ج3 ص543ح 6307،مخطوط مصور ج3 ص291)کی ایک روایت میں"الله ورسوله أعلم"کے الفاظ آئے ہیں اور حاکم نے اسے "صحيح على شرط الشيخين" قراردیا۔ لیکن اس کی سند منقطع ہونے کی وجہ ضعیف ہے۔اس کے راوی عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ  رحمۃ اللہ علیہ  کی سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ملاقات ثابت نہیں اور نہ روایت میں یہ صراحت ہے کہ انھوں نے اسے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے سنا تھا۔واللہ اعلم۔

مشہور اہلحدیث عالم حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے لکھا ہے:

"ہاں البتہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے غیب کی باتوں پر مطلع فرماتا ہے جس سے بعض دفعہ ان پر منافقین کا اور ان کے حالات اور ان کی سازشوں کا راز فاش ہوجاتاہے۔"(احسن البیان ص163،حاشیہ3 آل عمران:179)

ان دلائل سے معلوم ہواکہ اللہ ہی عالم الغیب ہے اور وہی الغیب جانتاہے ،نیز اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور رسولوں کو بعض غیب کی اطلاع فرمائی تھی۔(1/مئی 2010ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد3۔توحید و سنت کے مسائل-صفحہ47

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ