سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(359) اہل حدیث پر مخالفین حدیث کے حملے اور ان کا جواب

  • 21252
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2211

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض لوگوں نے اہل حدیث کے بارے میں درج ذیل عبارات لکھ کر اپنے دیوبندی تقلیدی"مفتیوں"سے مسئلہ پوچھا ہے کہ کیا اہل حدیث کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے؟

1۔وہ (یعنی اہل حدیث )امام (یعنی ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کو)نہیں مانتے اور ہم مانتے ہیں۔

2۔وہ کہتے ہیں کہ جب نیند سے(آدمی)اٹھ جائے اور پیشاب نہ آیا ہو تو نیند اور ہوا (خارج ہونے)سے وضو نہیں ٹوٹتا ،نیند پر نقض وضوء نہیں ہوتا خواہ مضطجعاً ہو یا غیر مضطجعاً خروج ریح پر وضو ء نہیں ٹوٹتا ۔

3۔ان کے مذہب میں آٹھ رکعات تراویح ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کے بارے میں حد سے تجاوز کیا ہے۔آٹھ رکعات تراویح کو صحیح مانتے ہیں اور باقی بارہ رکعات کے منکر ہیں۔کیا یہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے زیادہ احادیث کو جاننے والے ہیں؟

4۔وہ منی کو صاف (پاک)قراردیتے ہیں۔

5۔وہ فاتحہ خلف الامام بھی پڑھتے ہیں۔

6۔جرابوں پر مسح کو بھی جائز قراردیتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسح علی الجوربین مطلقاً جائز ہے بدون احناف کے ہر گونہ شرائط سے۔

7۔امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  کے بارے میں کہتے ہیں کہ کتب فقہ ویسے ہی اس کی طرف منسوب کی گئی ہیں۔

8۔وہ کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  تو کوئی عالم نہیں تھے اور کہتے ہیں کہ کیا ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  پر جبریل علیہ السلام  نازل ہوتے تھے؟اور کہتے ہیں۔ ہم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کو بالکل نہیں مانتے اور آئمہ ثلاثہ کو بھی نہیں مانتے۔

9۔لوگ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کو گمراہ سمجھتے ہیں اور تقلید کو گناہ کبیرہ قرار دیتے ہیں۔

10۔ان کے نزدیک امامت النساء جائز ہے حتیٰ کہ اقتداء الرجال خلف النساء بھی درست ہے۔

11۔وہ کہتے ہیں کہ وضع الیدین تحت السرۃ کا ثبوت کسی(صحیح)حدیث سے نہیں ہے۔

12۔وہ کہتے ہیں کہ بدون رفع الیدین نماز درست نہیں ہے۔ اگر کسی نے پڑھی ہو تو اعادہ لازمی ہے۔

13۔ان کے نزدیک صلوٰۃ مکتوبہ سے قبل و بعد کوئی سنت ثابت نہیں۔

14۔وہ کتب حدیث میں صرف بخاری شریف (صحیح بخاری)کو مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام بخاری غیر مقلد تھے۔باقی کتب حدیث کو وہ نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ ان کےمصنفین مقلد تھے اور صحیح بخاری کے علاوہ جملہ کتب احادیث مفتریات وتصنعات ہیں۔

15۔جمع بین الصلوٰۃ تین حقیقتاً کے بھی قائل ہیں ۔

16۔ان لوگوں نے تبلیغی جماعت والے زکریا دیوبندی صاحب کے بارے میں حد سےتجاوز کیا ہے۔

17۔ان کے نزدیک جمعہ کے دن قبل از فرائض کوئی سنت نماز نہیں ہے۔

اس طرح کی عبارات پر بغیر کسی تحقیق حوالے اور تصدیق کے دیوبندی مفتیوں نے فتویٰ دے دیا کہ" مذکورہ بالاعقائد کے حامل کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ  تحریمی ہے۔

آپ ہمیں تحقیق سے اور قوی دلائل کے ساتھ جواب دیں کہ کیا مذکورہ تمام عبارات کا اہل حدیث کی طرف انتساب صحیح ہے؟ اور کیا ان دیوبندی تقلیدی مفتیوں کا فتوی صحیح ہے؟ بینو توجروا جزاکم اللہ خیراً۔

(سائل محمد جلال محمدی بن عبدالحنان گاؤں جانس ڈاکخانہ و تحصیل شرینگل ضلع دیربالا صبہ سرحد)(24/نومبر2008ء بمطابق 26/ذوالعقدہ 1429ھ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا﴾ "اور جب بات کرو تو انصاف کرو"(سورۃ الانعام:152)

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِن جَآءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوۤاْ﴾

"اگر تمھارے پاس کوئی فاسق کسی خبر کے ساتھ آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو"(الحجرات:6)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا "

بے شک اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں سے کھینچ کر نہیں اٹھائے گا بلکہ وہ علماء کو فوت کر کے علم اٹھائے گا حتی کہ جب کوئی عالم نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنے پیشوا بنالیں گے پھر ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم فتوے دیں گے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔

(صحیح بخاری ج 1ص20ح 100،واللفظ لہ صحیح مسلم ج2 ص340ح 2673)ترقیم دارالسلام: 6796)

ان دلائل سے معلوم ہوا کہ مفتی کو درج ذیل باتوں کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے۔

1۔سائل کے سوال کی تحقیق کر کے جواب دے بالخصوص اس وقت تحقیق انتہائی ضروری ہے جب سائل کسی شخص یا گروہ پر الزامات لگا کر جواب یا فتوی طلب کرے۔

2۔بغیر علم کے فتوی نہیں دینا چاہیے۔

3۔ہمیشہ عدل وانصاف کی تراز وقائم کر کے غیر جانبداری کے ساتھ حق وانصاف والا جواب دینا چاہیے۔

یہاں پر یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ لوگوں کو چاہیے کہ قرآن وحدیث پر عمل کرنے والے صحیح العقیدہ مفتیوں سے مسئلے پوچھیں اور بے علم جاہلوں سے دور رہیں۔

اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کا مفصل اور جامع جواب پیش خدمت ہے۔

1۔امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  نعمان بن ثابت بن زوطی الکوفی الکابلی رحمۃ اللہ علیہ  کو ماننے اور نہ ماننے کا مطلب کیا ہے؟ اگر ماننے سے مراد یہ ہے کہ وہ ایک عالم تھے جو دوسری صدی ہجری میں فوت ہوئے تو عرض ہےکہ تمام اہل حدیث اس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کے وجود کا ثبوت تو تواتر سے ثابت ہے۔

مثلاً دیکھئے التاریخ الکبیر للبخاری(8/81ت2253)کتاب الکنیٰ للامام مسلم (مخطوط مصورص31/107)اور عام کتب الرجال:

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"ما رأيت أحدا أكذب من جابر الجعفي ولا أفضل من عطاء بن أبي رباح"

"میں نے جابر الجعفی سے زیادہ جھوٹا کوئی نہیں دیکھا اور عطاء بن ابی رباح سے زیادہ افضل کوئی نہیں دیکھا۔(علل الترمذی مع شرح ابن رجب ج1ص69)

اگر ماننے سے مراد امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کی تقلید کرنا ہے تو عرض ہے کہ دیوبندی اور بریلوی بلکہ حنفی حضرات اپنے قول و عمل کے ساتھ آئمہ ثلاثہ (امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ،امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ،)کی تقلید نہیں کرتے لہٰذا اگر تقلید نہ کرنا جرم ہے تو پھر یہ لوگ بھی اسی جرم کے مرتکب ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کی تقلید کا دعویٰ کرنے والے تقلیدی حضرات بہت سے مسائل میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کی بھی تقلید نہیں کرتے مثلاً:

مسئلہ1:

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک اگر میت مرد ہوتو نماز جنازہ پڑھانے والا امام اس کے سر کے قریب کھڑا ہو گا اور اگر میت عورت ہو تو اس کے درمیان (سامنے )کھڑا ہو گا ۔(دیکھئے الہدایہ ج1ص181کتاب الصلوٰۃ باب الجنائز )

امام صاحب کے پاس سیدنا انس رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کی حدیث بھی ہے مگر مروجہ تقلیدی فقہ اس فتویٰ کے خلاف ہے۔

مسئلہ2۔

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک زمیندار کو اس شرط پر اپنی زمین دینا کہ وہ ایک تہائی یا ایک چوتھائی حصہ لے یا دے تو باطل ہے۔(دیکھئے الہدایہ 2/424کتاب المزارعہ)

جبکہ مروجہ تقلیدی عمل و فتوی اس کے خلاف ہے۔

مسئلہ3۔

 امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک منقود الخبر کی بیوی ایک سو بیس (120)سال انتظار کرے۔(دیکھئے الہدایہ 1/623کتاب المفقود)

جبکہ قدیم و جدید تقلید کے دعویداروں کا فتوی اس کے خلاف ہے۔

مسئلہ4۔

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک انڈا بیچنا جائز نہیں ہے۔(دیکھئے الہدایہ2/54کتاب البیوع باب البیع الفاسد )

جبکہ تقلیدی فتوی اس قول کے خلاف ہے۔

مسئلہ5۔

پرانے حنفیوں(جن میں امام صاحب خود بخود شامل ہیں)کے نزدیک اذان حج، امامت تعلیم قرآن اور تعلیم فقہ پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔(دیکھئے الہدایہ2/303کتاب الاجارۃ وغیرہ)

جبکہ ہمارے زمانے میں تمام آل تقلید اس فتوی کے خلاف ہیں۔

دیوبندیوں کے مفتی کفایت اللہ دہلوی سے کسی نے پوچھا:

"اہل حدیث جن کو ہم لوگ غیر مقلد بھی کہتے ہیں مسلمان ہیں یا نہیں ؟ اور وہ اہل سنت والجماعۃ میں داخل ہیں یا نہیں ۔ اور ان سے نکاح شادی کا معاملہ کرنا درست ہے یا نہیں؟ کفایت اللہ دہلوی صاحب نے جواب دیا :

"ہاں اہل حدیث مسلمان ہیں اور اہل سنت والجماعت میں داخل ہیں۔ ان سے شادی بیاہ کا معاملہ کرنا درست ہے محض ترک تقلید سے اسلام میں فرق نہیں پڑتا اور نہ اہل سنت والجماعۃ سے تارک تقلید باہر ہوتا ہے۔فقط"(کفایت المفتی ج1ص325جواب نمبر370)

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  نے لوگوں کو اپنی اور دوسروں کی تقلید سے منع فرمایا تھا۔

دیکھئے کتاب الام للمزنی (ص1)اور آداب الشافعی لابن ابی حاتم (ص51وسندہ حسن) امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  نے امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ  سے فرمایا: اپنے دین میں ان میں سے کسی ایک کی بھی تقلید نہ کر۔(مسائل ابی داؤدص 277،میری کتاب دین میں تقلید کا مسئلہ ص38)

بعض لوگ کہتے ہیں کہ اماموں نے مجتہدین کو تقلید سے منع کیا تھا نہ کہ عوام کو۔

عرض ہے کہ یہ بات کئی وجہ سے مردود ہے۔

1۔مجتہد تو اسے کہتے ہیں جو تقلید نہیں کرتا بلکہ اجتہاد کرتا ہے۔ ماسٹر امین اوکاڑوی دیوبندی نے لکھا ہے کہ" اہل سنت کا اتفاق ہے کہ اجتہادی مسائل میں مجتہد پر اجتہاد واجب ہے۔(تجلیات صفدر ج4ص300)

جس پر تقلید حرام اور اجتہاد واجب ہے اسے تقلید سے منع کرنا تحصیل حاصل اور بے سود ہے۔

2۔اماموں سے یہ بات قطعاً ثابت نہیں کہ عوام تو تقلید کریں اور صرف مجتہدین اجتہاد کریں۔

3۔ حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

بلکہ ان (اماموں )سے اللہ راضی ہو، یہ ثابت ہے کہ انھوں نے لوگوں کو اپنی تقلید سے منع فرمایا تھا۔(مجموع فتاوی ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  ج20ص10،ماہنامہ الحدیث حضرو 55ص2)

اس قول میں "الناس " یعنی لوگوں سے مراد عوام ہیں جیسا کہ ظاہر ہے۔ معلوم ہوا کہ سائل کا پہلا اعتراض اور اس پر تقلیدی مفتیوں کا جواب دونوں مردود ہیں۔

2۔اہل حدیث کا یہ موقف ہے کہ دبر(یا قبل)سے ہوا خارج ہونے کے ساتھ وضو ٹوٹ جاتا ہےجیسا کہ راقم الحروف نے کئی سال پہلے ایک سوال کے جواب میں لکھا تھا۔

"ان احادیث سے معلوم ہوا کہ انسان کی ہوا نکلنے کے ساتھ اس کا وضوء فوراً ٹوٹ جاتا ہے۔

چاہے یہ ہوا آواز سے نکلے یا بے آواز نکلے۔ چاہے بدبو آئے یا نہ آئے چاہے معمولی پھسکی ہو یا بڑا پاد،چاہے دبر سے نکلے یا قُبل سے ان سب حالتوں میں یقیناً وضو ءٹوٹ جاتا ہے۔ اور یہی اہل حدیث کا مسلک ہے۔"(ماہنامہ الحدیث 2ص29جولائی 2004ء)

معلوم ہوا کہ معترض سائل نے اہل حدیث پر جو الزام لگایا ہے وہ غلط ہے۔

اہل حدیث کے نزدیک نیندسے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

 دیکھئے سنن الترمذی (3535وقال:"حسن صحیح")اور میری کتاب "مختصر صحیح نماز نبوی " (طبع سوم ص8فقرہ 13)

3۔آٹھ رکعات تراویح کے سنت ہونے کا اعتراف حنفی اور دیوبندی "علماء نے بھی کر رکھا ہے مثلاً ابن ہمام نے کہا:

اس سب کا حاصل یہ ہے کہ قیام رمضان گیارہ رکعات مع وتر جماعت کے ساتھ سنت ہے۔

(فتح القدیر ج1ص407میری کتاب :تعداد رکعات قیام رمضان کا تحقیق جائزہ ص108)

ابن نجیم مصری نے ابن ہمام حنفی سے بطور قرار نقل کیا کہ" پس اس طرح ہمارے مشائخ کے اصول پر ان میں سے آٹھ (رکعتیں )مسنون اور بارہ مستحب ہو جاتی ہیں۔"(البحر الرائق ج2ص67)

طحطاوی نے کہا: کیونکہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیس نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ پڑھی ہیں۔(حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار ج1ص295)

خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی نے اعلان کیا:

"اور سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو بالا اتفاق ہے اگر خلاف ہے تو بارہ میں ہے۔"(براہین قطعہ ص195)

تفصیل کے لیے دیکھئے تعداد رکعات (ص107،111)

یہ کہنا کہ"سیدنا عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کے بارے میں حد سے تجاوز کیا ہے۔"معترض سائل کا جھوٹ اور بہتان ہے جس کا حساب اسے اللہ تعالیٰ کے دربار میں دینا ہو گا۔"ان شاء اللہ۔

ہم اعلان کرتے ہیں کہ" ہم تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو عدول اور اپنا محبوب مانتے ہیں تمام صحابہ کو حزب اللہ اور اولیاء اللہ سمجھتے ہیں۔ ان کے ساتھ محبت کو جزو ایمان سمجھتے ہیں۔ جو ان سے بغض رکھتا ہے ہم اس سے بغض رکھتے ہیں۔"

(دیکھئے میری کتاب:جنت کا راستہ ص4مطبوعہ 1415ھ علمی مقالات ج 1ص27)

سیدنا عمر الفاروق خلیفہ راشد  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  تو جلیل القدر صحابی اور قطعاً جنتی ہیں لہٰذا ان سے محبت کرنا اور ان کا احترام کرنا ہمارا جزو ایمان ہے۔اے اللہ! سیدنا عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی محبت پر ہمیں زندہ رکھ اور اسی عقیدے پر ہمارا خاتمہ فرما۔ آمین۔

یہ کہنا کہ" آٹھ رکعات تراویح مانتے ہیں۔" کوئی عیب والی بات نہیں ہے کیونکہ آٹھ رکعات کا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے اور سیدہ نا عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے بھی ثابت ہے۔انور شاہ کشمیری دیوبندی نے کہا: اور اسے تسلیم کیے بغیر کوئی چھٹکارا نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تراویح آٹھ رکعات تھی۔الخ(العرف الشذی ج1ص166تعداد رکعات ص110)

نیز دیکھئے صحیح بخاری (ج 1ص269ح2013عمدۃ القاری ج11ص128، تعداد رکعات ص15)

سیدنا امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے سیدنا اُبی بن کعب رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  اور سیدنا تمیم الداری رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کو حکم دیا کہ لوگوں کو گیارہ رکعات پڑھائیں۔الخ۔

(مؤطا امام مالک ج1ص114،آثار السنن ص250ح 775وقال: واسنادہ صحیح)

اس فاروقی حکم والی روایت کے بارے میں نیموی تقلیدی نے کہا:اور اس کی سند صحیح ہے۔(آثار السنن دوسرا نسخہ ص392)

باقی بارہ یا اس سے زیادہ رکعات کے بارے میں عرض ہے کہ یہ رکعتیں نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے باسند صحیح ثابت ہیں اور نہ سید نا عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے قولاً فعلاً ثابت ہیں لہٰذا ہم انھیں سنت نہیں مانتے۔رہے نوافل تو عرض ہے کہ نوافل پر کوئی پابندی نہیں۔جس کی مرضی ہو بیس پڑھے اور جس کی مرضی ہو چالیس پڑھے لیکن یاد رہے کہ سنت گیارہ رکعات ہی ہیں۔اور اسی پر اہل حدیث کا عمل ہے۔ والحمد للہ۔

سائل کا یہ کہنا کہ" کیا یہ لوگ(سیدنا)عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ سے زیادہ احادیث کو جاننے والے ہیں؟"

تو عرض ہے کہ ہر گز نہیں، حاشا وکلا ہمارا یہ دعویٰ ہر گز نہیں بلکہ ہم تو سیدنا عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کی عزت و تکریم اور آپ سے محبت جزو ایمان سمجھتے ہیں۔

4۔منی کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔حنفیوں کے چچا زاد بھائی شوافع اسے پاک سمجھتے ہیں جیسا کہ محمد تقی عثمانی دیوبندی نے کہا:

"منی کی نجاست و طہارت کے بارے میں اختلاف ہے، اس میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے دور سے اختلاف چلا آرہا ہے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں سے حضرت ابن عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  اور ابن عباس رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  اور آئمہ میں سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک منی طاہر ہے۔(درس ترمذی ج1ص346)

طاہر پاک کو کہتے ہیں۔ یاد رہے کہ ہمارے نزدیک منی ناپاک ہے جیسا کہ میں نے کئی سال پہلے ایک سوال کے جواب میں لکھا تھا۔یہ سوال و جواب درج ذیل ہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔اصول، تخریج اورتحقیقِ روایات-صفحہ671

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ