سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(344) چند اہم سوالات اور ان کے جوابات

  • 21237
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2560

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آپ کی خدمت میں پھر کچھ دینی سوالات ارسال کر رہا ہوں تاکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں جوابات حاصل کر سکوں۔

1۔یہاں مدارس کے علاقے کے اہلحدیثوں سے یہ بات آئی ہے کہ جہری نمازوں کی جماعت میں مقتدیوں کو سورہ فاتحہ سنناچاہیے۔انفرادی طور پر پڑھنا ضروری نہیں۔ یہ قول کہا تک صحیح ہے؟

2۔کہتے ہیں صحیح ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ  میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے روایت بیان کی گئی ہے کہ کسی کو جماعت کی نمازوں میں رکوع مل جانے سے، اسے رکعت ملنا شمار کیا جائے گا۔اس بارے میں حقیقت کیا ہے؟باوجود قیام نہ ملنے اور سورۃ فاتحہ نہ پڑھ سکنے کے رکعت کیسے شمار ہوگی؟

3۔وتر کس طرح پڑھا جائے؟ دورکعت پڑھ کر سلام پھیرنے کے بعد ایک رکعت پڑھی جائے یا تین رکعتیں اکٹھی پڑھ کر ایک ہی تشہد سے سلام پھیرا جائے۔"

4۔عیدین اور جنازہ کی نماز میں ہر تکبیر پر رفع یدین کر کے ہاتھ باندھنا صحیح ہے یا صرف تکبیر اولیٰ پر ہی رفع یدین کر کے ہاتھ باندھنا چاہئیں ؟

5۔عیدین کی نماز سے پہلے جو تکبیریں کہی جاتی ہیں تو یہاں ہوتا یہ ہے کہ ایک شخص پہلے بلند آواز سے مائیک میں تکبیر کہتا ہے اور پھر حاضرین جواباً مجموعی طور پر تکبیر کہتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟

6۔کیا عیدین میں خطبہ کے بعد امام اور مقتدیوں کا ہاتھ اٹھا کر مجموعی طور پر دعا مانگنا صحیح ہے؟

7۔عیدین میں خطبہ عید کے بعد عید مبارک کہنا او (معانقہ)بغل گیر ہونے کا جو دستور ہے شرعاً کیسا ہے؟

8۔ ذوالحجہ کے مہینے میں مسجدوں میں جماعت کی فرض نمازوں کے بعد جو تکبیر کہی جاتی ہیں وہ کب سے کہی جائیں؟نویں سے 13 تاریخ تک یا پہلی سے 13تاریخ تک؟(چونکہ سورہ فجر میں ولیال عشر کی قسم کھائی گئی ہے)

9۔اگر عید جمعہ کے دن ہو تو خطبہ ساقط ہو جاتا ہے؟ یعنی صرف ظہر پڑھنی چاہیے؟

10۔جمعہ کے خطبہ سے قبل جو نماز یں پڑھی جاتی ہیں وہ دودورکعتیں پڑھی جائیں یا اکٹھی چار رکعتیں پڑھی جاسکتی ہیں؟(کیونکہ مشاہدہ یہ ہے کہ لوگ جمعہ کی پہلی اذان کے بعد چار رکعتیں اکٹھی پڑھتے ہیں)

11۔جمعہ کی فرض نماز کے بعد جو چار رکعتیں سنت ہیں وہ دو دو رکعتیں پڑھنی ہیں؟ یا چار رکعتیں اکٹھی ایک سلام سے بھی پڑھی جا سکتی ہیں؟

12۔سجدہ تلاوت نفل نمازوں کے ممنوع اوقات میں( یعنی نماز فجر اور نماز اشراق کے درمیان اور نماز عصر اور غروب آفتاب کے درمیان کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ سجدہ تلاوت فرض ہے؟ واجب ہے؟ یا کچھ اور؟ اگر ان اوقات میں تلاوت کے دوران آئے ہوئے سجدہ تلاوت کو بعد میں کر لیا جائے تو کیسا ہے؟

13۔مسجد میں بیٹھے ہوئے کسی شخص کے ٹھیک پیچھے دوسرا کوئی شخص اپنی انفرادی نماز پڑھ رہا ہو تو کیا وہ بیٹھا ہوا شخص اس نمازی کے سلام پھیرنے سے قبل اپنی جگہ سے اٹھ کر جا سکتا ہے؟

14۔کئی مسجدوں میں(خاص کررمضان المبارک میں)نمازیوں کی اتنی کثرت ہوتی ہےکہ مسجد کا ہال اور صحن پرہو جانے پر سیڑھی کے راستے سے آنے والے جماعت میں شامل ہونے کے لیے اوپر جانا چاہیں تو ان کو نمازیوں کے سامنے سے گزرنا ہو گا۔ تو ایسی حالت میں کیا کرنا چاہیے؟ جماعت چھوڑدے یا نمازیوں کے سامنے سے گزر جائے؟

15۔میت کو قبر میں دفنانے کے بعد قبر کے سرہانے سورہ اخلاص (تین بار)سورہ فلق سورۃ الناس ، سورۃفاتحہ اور سورہ بقرہ کا پہلا رکوع اور پاؤں کی طرف سورہ بقرہ کا آخری رکوع پڑھنے کے بعد حاضرین ہاتھ اٹھا کر دعا ئیں مانگتے ہیں کیا ایسا کرنا شرعاً ٹھیک ہے؟

16۔کوئی اعتکاف کے لیے بیسویں رمضان کو اذان مغرب سے قبل کسی مجبوری اور لاچاری کی وجہ سے مسجد نہ پہنچ سکے تو کس وقت تک اس کا مسجد پہنچنا اعتکاف کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے؟

17۔معتکف کو کس وقت اپنے حجرے میں داخل ہونا چاہیے ؟

18۔معتکف اپنے حجرے کے باہر مسجد کے احاطے میں نماز، تلاوت قرآن ، دعا وغیرہ کر سکتا ہے؟

19۔کیا یہ صحیح ہے کہ معتکف بلا شرعی حاجت کے غسل وغیرہ نہ کرے؟

20۔عید کے چاند کی اطلاع پر معتکف کے مسجد سے گھر لوٹنے سے قبل دورکعت نماز پڑھنا کیا ضروری ہے؟یہ دورکعت کیا نماز ہے؟

21۔کیا کوئی شخص اپنے بیٹے کےعقیقے کے لیے دو بکرے یا بھیڑذبح کرنے کے بجائے عیدلاضحیٰ کے موقع پر گائے میں سات قربانیوں کے حصوں میں دو حصے عقیقہ کے شامل کر سکتا ہے؟

22۔ایک ملک میں رہنے والا دوسرے ملک کو اپنی زکوۃ کی رقم بھیج سکتا ہے یا اپنی قربانی دوسرے ملک میں کرواسکتا ہے؟ (واضح رہے کہ ملکوں کی کرنسی کے نرخ میں کافی فرق ہوتا ہے)

23۔اسی طرح ایک شہر سے دوسرے شہر یا علاقے کو زکوۃ اور قربانی بھیج سکتا ہے؟

24۔وفات کے وقت کوئی مسلم دوبیویاں چھوڑے ۔ ایک کی اولاد ہو، دوسری کی نہیں تو وراثت میں بے اولاد بیوی کا کتنا حق ہو گا؟

25۔ایک مسلم مرد کی تین بیویاں ہیں دوسری (جو پہلے بیوہ تھی)پہلی کی سگی بہن ہے۔ چونکہ دو بہنوں کو نکاح میں اکٹھا کرنا منع ہے۔ دوسری سے نکاح کرنے سے پہلی کا نکاح ٹوٹ جاتا ہےیا دوسری کا نکاح باطل ہے؟ تینوں بیویوں سے اولاد بھی ہے۔ چنانچہ دوسری سے پیدا ہونے والے بچوں کی بحیثیت کیا ہے۔ دوسری سے نکاح کے بعد پہلی بیوی سے پیدا ہونے والے بچوں کی حیثیت کیا ہے؟مرد کے انتقال پر وراثت میں سب بیویوں کی اولاد کو حق ملے گا؟ کیا وراثت میں تینوں بیویوں کا حق ہو گا؟

26۔زید کی نکاح شدہ مسلم بیوی بغیر طلاق لیے اپنے شوہر کو چھوڑ کر چلی گئی اور دوسرے مسلم مرد کے ساتھ کئی سال رہنے کے بعد زید کے پاس واپس لوٹ آئی۔ کیا زید کا نکاح باقی رہتا ہے؟کیا اسے نکاح کی تجدید کرنی ہو گی؟ اگر بیوی مسلم مرد کے بجائے کسی غیر مسلم مرد کے پاس رہ کر آئی ہو تو اس صورت میں پھر اسے اپنانے کے لیے زید کو کیا کرنا ہو گا؟(عبدالرحمٰن یعقوب آٹیہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کے سوالات کے مختصر اور جامع جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں۔

1۔جہری نمازوں میں بھی مقتدی پر سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب (یعنی فرض)ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جہری نماز کے مقتدیوں کو فرمایا:

"فَلا تَفْعَلُوا إِلا بِ أُمِّ الْقُرْآنِ , فَإِنَّهُ لا صَلاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا "

تم سوائے سورہ فاتحہ کے اور کچھ بھی نہ پڑھو، کیونکہ جو شخص سورہ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔

(کتاب القراءت للبیہقی ص64ح121،وقال البیہقی : وھذا اسناد صحیح ورداتہ ثقات)

اس حدیث کے راوی نافع بن محمود و جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں لہٰذا بعض علماء کا انھیں مجہول یا مستور کہنا غلط و مردود ہے۔

دیکھئے میری کتاب" الکواکب الدریہ فی وجوب الفاتحہ خلف الامام فی الجہریۃ"

فاتحہ خلف الامام کے مسئلہ پر مزید تفصیل کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ مفید ہے۔جزء القراءت للبخاری ، کتاب القراءت للبیہقی تحقیق الکلام  لعبدالرحمٰن المبارکفوری رحمۃ اللہ علیہ  ۔

2۔یہ روایت صحیح ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ  (ج3ص58ح1622)میں یحییٰ بن ابی سلیمان عن زید عن ابی العتاب وابن المقری عن ابی ہریرہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کی سند سے موجود ہے۔ امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔

"القلب من هذا الإسناد فإني كنت لا أعرف يحيى بن أبي سليمان بعدالة ولا جرح"

"دل اس سند پر مطمئن نہیں ہے کیونکہ یحییٰ بن سلیمان کو جرح تعدیل کی روسے میں نہیں جانتا ۔

صحیح ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ  کے علاوہ یہ روایت سنن ابی داؤد (893)سنن داقطنی  رحمۃ اللہ علیہ ، سنن بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ اور مستدرک الحاکم(ج1ص216،273،274وصححہ دوافقہ الذہبی و خالفہ مرۃ اُخری ) میں بھی یحییٰ بن ابی سلیمان کی سند سے موجود ہے۔

راقم الحروف نے سنن ابی داودکے حاشیہ "نیل المقصودفی التعلیق علی سنن ابی داود ج1ص2881قلمی) میں یہ ثابت کیا ہے کہ یحییٰ مذکور جمہور محدثین  کے نزدیک ضعیف ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے اسے" منکر الحدیث" کہا ہے۔

(جزء القراءت للبخاری 239،نصرالباری ص261،262،ح 239)

جو کہ (امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک)شدید جرح ہے۔ یحییٰ بن ابی سلیمان کی حدیث کے جتنے شواہد ہیں سب بلحاظ سند ضعیف ہیں۔شیخ ناصر الدین البانی نے"مسائل احمد و اسحاق"لاسحاق بن منصورالمروزی نامی کتاب سے ایک شاہد ذکر کر کے اسے"وھذا اسناد صحیح ثقات  رجال الشیخین" قرار دیا ہے۔

حالانکہ اس سند میں بشرط صحت کتاب ابن مغفل المزنی کا تعین محل نظر ہے ۔ تہذیب الکمال ، تہذیب التہذیب وغیرہما میں عبد اللہ بن مغفل المزنی الصحابی کے حالات میں عبد العزیز بن رفیع کا بطور شاگرد و تذکرہ نہیں ہے بلکہ شداد بن مغفل(الکوفی الاسدی) کے شاگردوں میں عبدالعزیز اور عبدالعزیز  کے استادوں میں شداد کا ذکر ملتا ہے۔

عین ممکن ہے کہ اصل مخطوطہ میں"ابن معقل "غیر منقوط ہو جسے شخص صاحب نے ابن مغفل سمجھ لیا ہے حالانکہ اسے ابن مغفل بھی پڑھا جا سکتا ہے لہٰذا ضرورت یہ ہے کہ اس کتاب کے قلمی نسخوں کو دیکھا جائے تاکہ ابن مغفل کا تعین ہو سکے ۔ابن مغفل کے تعین کی صورت میں یہ روایت مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہو جاتی ہے۔

3۔وتر پانچ تین ایک وغیرہ پڑھنا صحیح وجائز ہے۔ تین رکعت وتر پڑھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیردیا جائے اور ایک رکعت علیحدہ پڑھی جائے۔ اس کے بہت سے دلائل ہیں۔

مثلاً دیکھئے صحیح مسلم (ج1ص254ح 738،745،751،)صحیح ابن حبان (ج70 ح 2426)مسند احمد (ج2ص76) المعجم الاوسط للطبرانی (ج1ص422ح 757)

تین رکعتیں ایک سلام سے پڑھنے والی مرفوع روایت (السنن الکبری للبیہقی 3/28،حاکم اور 304) قتادہ کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ قتادہ ثقہ اورامام اور مشہور مدلس ہیں۔دیکھئے تقریب التہذیب (5518)

4۔تکبیرات عیدین میں ہاتھ باندھنا ہی راجح ہے۔ حالت قیام قبل از رکوع میں ہاتھ باندھنے پر اتفاق ہے۔جناب محمد قاسم خواجہ صاحب لکھتے ہیں۔"بعض لوگوں تکبیرات عید کےدرمیان ہاتھ کھلے چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے چونکہ یہ حالت قیام ہے اس لیے بارگاہ ایزدی میں دست بستہ ہی کھڑا ہو نا چاہیے۔(حی علی الصلوٰۃ ص153،154)

5۔میرے علم میں یہ عمل ثابت نہیں ہے۔واللہ اعلم)

6۔یہ مسئلہ اجتہادی ہے۔دعا مانگنا ثابت ہے لیکن مقتدیوں کا امام کے ساتھ ہاتھ اٹھا کردعا مانگنا ثابت نہیں لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ہاتھ بلند کر کے اجتماعی دعا نہ مانگی جائے۔

7۔اس کا کوئی ثبوت میرے علم میں نہیں "تَقَبَّلَ اللَّهُ مِنَّا وَمِنْكُمْ"  والی دعا صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے منقول ہے۔ اسے حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ نےحسن اور احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ نے جید کہا ہے۔(فتح الباری ج2ص446الجوہر التقی ج3 ص320) مجھے ان آثار کی سند نہیں ملی۔ واللہ اعلم)

علی بن ثابت الجزری سے روایت ہے کہ میں نے(امام )مالک بن انس رحمۃ اللہ علیہ )سے پوچھا:لوگ عید کے دن "تَقَبَّلَ اللَّهُ مِنَّا وَمِنْكُمْ"کہتے ہیں؟

 انھوں نے فرمایا:"

"مازال ذلك الأمر عندنا ما نرى به بأسا"

"ہمارے ہاں اسی پر مسلسل عمل ہے۔ ہمارے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(کتاب الثقات لا بن حبان 9/90وسندہ حسن)

8۔حافظ ابن حجران تکبیرات کے بارے میں لکھتے ہیں۔"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے جو صحیح ترین روایت مروی ہے وہ علی رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  اور ابن مسعود رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کے قول (وفعل )سے مروی ہے۔"(ملخصافتح الباری ج2ص462)

علی رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  سے ثابت ہے کہ آپ عرفات کے دن (9/ذوالحجہ )صبح کی نماز کے بعد تکبیریں شروع کرتے اور آخری یوم تشریق(13/ذوالحجہ )کی عصر تک پڑھتے تھے، اس دن مغرب کے بعد نہیں پڑھتے تھے۔دیکھئے الکبری للبیہقی (ج3ص314وسندہ صحیح )وصححہ الحالم والذہبی (ج1ص299المستدرک )

9۔عید اگر جمعہ کے دن ہو تو نماز عید پڑھنے کے بعد اس دن جمعہ کی فرضیت ساقط ہو جاتی ہے۔لہٰذا اختیار ہے کہ نماز جمعہ پڑھیں یا نماز ظہر لیکن نبوی عمل کی روشنی میں اس دن نماز جمعہ پڑھنا افضل ہے۔سنن ابی داؤد (ح1070)کی روایت میں آیا ہے کہ:

 "قال: صلى العيد ثم رخص في الجمعة، فقال: (من شاء أن يصلي فليصل"

آپ نے نماز عید پڑھی پھر نماز جمعہ میں رخصت دے دی اور فرمایا:جو شخص نماز جمعہ پڑھنا چاہے پڑھ لے۔

اس کی سند حسن ہےاسے ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ (1464)حاکم رحمۃ اللہ علیہ  اور ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ (المستدرک ج1ص288)نے صحیح کہا ہے۔ ایاس بن ابی رملہ جمہور کے نزدیک ثقہ و صدوق اور حسن الحدیث راوی ہیں۔ احکام العیدین للفریابی( ص211تا 218)میں اس کے بہت سے شواہد موجود ہیں۔

10۔یہ رکعتیں اور دیگر سنن و نوافل دودو کر کے پڑھی جائیں کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ :

"صلاة الليل والنهار مثنى مثنى"

رات اور دن کی(نفل ) نماز دودورکعت ہے۔(سنن ابی داود :1295وسندہ حسن)

اسے ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ (1210) اور ابن حبان  رحمۃ اللہ علیہ (الموارد  رحمۃ اللہ علیہ 636)نے صحیح قراردیا ہے۔

علوم الحدیث للحاکم رحمۃ اللہ علیہ (ص58) میں حسن شاہد اور السنن الکبری للبیہقی (ج2ص487) میں اس کا صحیح موقوف شاہد ہے۔

علی بن عبد اللہ البارقی جمہور محدثین کے نزدیک موثق ہیں لہٰذا حسن الحدیث راوی ہیں اور اس کا تفرد چنداں مضر نہیں ہے۔

11۔دودو کر کے پڑھی جائیں۔ دیکھئے نمبر10۔

12۔طلوع آفتاب زوال اور غروب آفتاب کو ملحوظ رکھتے ہوئے سجدہ تلاوت کرنا بہتر ہے۔ سجدہ تلاوت سنت ہے واجب یا فرض نہیں ہے۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے سورۃ النجم سنی اور سجدہ نہیں کیا۔

(صحیح بخاری ج1ص146ح 1072،صحیح مسلم ج1ص 215ح 577)

مزید تفصیل کے لیے دیکھئے ماہنامہ شہادت (ج 6شمارہ 5مئی 1999ء)سوال و جواب قرآن و سنت کی روشنی میں ص29) کا مطالعہ کریں۔سجدہ تلاوت بعد میں کرنا بھی جائز ہے۔ واللہ اعلم۔

13۔اٹھ کر جا سکتا ہے کیونکہ گزرنے اور اٹھنے میں فرق ہے۔واللہ اعلم۔

14۔ امام کا سترہ مقتدی کا سترہ شمار ہو گا۔کی روسے اگر امام نماز پڑھا رہا ہو تو گزر سکتا ہے ورنہ نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ دروازے کے پاس یا باہر صف بنالیں تاکہ نمازی کے آگے سے نہ گزرنا پڑے۔

15۔جس طرح عام چار پائی پر انسان لیٹتا ہے اسی طرح میت کو کفن کے بعد لٹایا جائے پھر اسے اس طرح جنازہ گاہ اور قبر کی طرف لے جایا جائے کہ اس کا سر آگے ہو۔ امام بیہقی نے روایت کیا ہے کہ عبد الرحمن بن عوف  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کا جنازہ سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  چار پائی کے اگلے دونوں پاؤں کی طرف سے کندھے پر رکھ کر لے گئے۔(السنن الکبری للبیہقی 4/20وسندہ صحیح)

16۔قبر پر مذکورہ سورتوں یا باقی قرآن کا پڑھنا صحیح سند سے ثابت نہیں ہے۔ صحیح مسلم(780)کی ایک حدیث سے متعدد علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ قبرستان میں قرآن پڑھنا مکروہ ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ، اور امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  سے اس کی کراہت منقول ہے۔دیکھئے اقتضاء الصراط المستقیم (ص380)مسائل ابی داود (ص158)

عبد الرحمٰن بن العلاء بن جلاج کی جس روایت کی جس روایت میں آیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  نے وصیت کی تھی کہ ان کی قبر پر دفن کے بعد سورۃ البقرہ کا شروع اور آخری حصہ تلاوت کیا جائے(کتاب الروح ص17)بلحاظ سند ضعیف ہے۔اس کا راوی عبد الرحمٰن مجہول الحال ہے اسے ابن حبان کے علاوہ کسی نے بھی ثقہ نہیں کہا۔اس کے دوسرے راوی الحسن بن احمدالوراق اور علی بن موسیٰ الحداد بھی مجہول الحال اور غیر معروف ہیں۔

البتہ قبرستان میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا صحیح ہے۔

دیکھئے صحیح مسلم (ح974)کتاب الجنائز باب مایقال عنددخول القبور والدعاء لا ھلھا)

17۔مسنون یہی ہے کہ آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھے اگر کسی مجبوری کی وجہ سے لیٹ ہو جائے تو اعتکاف صحیح ہے لیکن مسنون اعتکاف کے ثواب سے محروم ہو جائے گا۔ واللہ اعلم۔

18۔بیسویں روزے کی شام کو مسجد میں داخل ہونا چاہیے اور پھر نماز فجر کے بعد اعتکاف والے حجرہ میں بیٹھنا چاہیے۔

"كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ صَلَّى الْفَجْرَ ثُمَّ دَخَلَ مُعْتَكَفَهُ"

نبی صلی اللہ علیہ وسلم  جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو صبح کی نماز پڑھ کر جائے اعتکاف میں داخل ہو جائے ۔ دیکھئے صحیح مسلم (1173،دارالسلام :2785)

19۔اس کے ناجائز ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ جائے اعتکاف میں یہ امور انجام دے۔

20۔معتکف کے لیے جائز ہے۔کہ جب چاہے غسل کرے۔شریعت میں اس کی ممانعت منقول نہیں  ہے تاہم اسے مسجد میں موجود غسل خانہ میں ہی غسل کرنا چاہیے ۔ اس کا احاطہ مسجد سے شرعی عذر کے بغیر نکلنا صحیح نہیں ہے۔

21۔میرے علم میں ان دو رکعتوں کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ واللہ اعلم)

22۔مسنون یہی ہے کہ عقیقہ میں بکری (بکرا)اور بھیڑ(نریا مادہ )ذبح کئے جائیں۔گائے یا اونٹ وغیرہ کا عقیقہ میں ذبح کرنا ثابت نہیں ہے۔چہ جائیکہ اسے حصوں میں تقسیم کیا جائے جس روایت میں ہے۔کہ :

"فليعق عنه من الإبل أو البقر أو الغنم"

یعنی اس کی طرف سے اونٹ گائے اور بکریاں عقیقہ میں ذبح کی جا سکتی ہیں۔ (المعجم الصغیر للطبرانی 1/84)

اس کی سند مسعدہ بن الیسع وغیرہ کی وجہ سے موضوع و باطل ہے۔

اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہا   سے پوچھا گیا کہ عبد الرحمٰن بن ابی بکر کے بچے کی طرف سے ایک اونٹ بطور عقیقہ ذبح کریں تو انھوں نے فرمایا:

"معاذ الله ولكن ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم( شاتان مكافأتان"

یعنی میں(اس بات سے)اللہ کی پناہ چاہتی ہوں لیکن (میں وہ کروں گی)جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے کہ دو بکریاں کافی ہیں۔

(السنن الکبری للبیہقی ج9ص301وسندہ حسن تحفۃ الاخیار 6/428ح 2516وسندہ حسن مشکل الآثار للطحاوی 3/68،ح1042وسندہ حسن الکامل لابن عدی 5/1962دوسرا نسخہ 7/15)

اس روایت سے کئی مسائل ثابت ہوتے ہیں مثلاً :

(الف) گائے اور اونٹ وغیرہ کو بطور عقیقہ ذبح کرنا جائز نہیں ہے۔

(ب)قرآن وحدیث کو تمام آراء وفتاوی پرہمیشہ ترجیح حاصل ہے۔ بلکہ ہر وہ رائے اور فتوی جو قرآن و حدیث کے خلاف ہے مردود ہے۔

(ج)سیدہ عائشہ رضی اللہ  تعالیٰ عنہا   کی عظیم فضیلت اس سے ثابت ہے کیونکہ آپ اتباع سنت میں بہت سختی کرنے والی تھیں۔

23۔بغیر شرعی عذر کے ایک علاقے کے لوگ دوسرے علاقے میں زکوۃ نہ بھیجیں ۔

"تؤخذ من أغنيائهم فترد على فقرائهم"

ان کے امیروں سے لے کر ان کے غریبوں کو زکوۃ دی جاتی ہے۔(صحیح بخاری : 1395صحیح مسلم: 19)

دوسرے ملکوں میں قربانی بھیجنے کا ثبوت مجھے معلوم نہیں ہے۔

24۔اس کا جواب وہی ہے جو حوالہ سابق 23 میں گزر چکا ہے۔

25۔نص قرآن (سورۃ النساء:12)کی روسے اسے ثمن(8/1)ملے گا۔

26۔دوسری بیوی جو پہلی بیوی کی سگی بہن ہے۔ پہلی کی زندگی و حالت نکاح کی صورت میں دوسری سے نکاح باطل ہے۔ اگر زوج اور زوجہ ثانیہ کو حرمت کا علم تھا تو سزا بھی ملے گی۔ دوسری کی اولاد کا وراثت میں کوئی حق نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔

27۔زید کی مذکورہ بیوی زانیہ ہے۔ اس کے نکاح کی تجدید تو نہیں ہوگی لیکن اسلام میں اس کی سزا سنگسار کرنا ہےوما علینا الا البلاغ ۔(شہادت نومبر 1999ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔اصول، تخریج اورتحقیقِ روایات-صفحہ637

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ