سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(143) حدیث "مَنْ كَانَ لَهُ إمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ"کی تحقیق

  • 21036
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 2765

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

درج ذیل روایت کے بارے میں مفصل و مدلل جامع اور زور وار اور جاندار تحقیق کے لیے آپ کو تکلیف دے رہا ہوں۔میرے بے شمار عزیز دوست اور بزرگ اپنے مخصوص نظر یہ اور طرز عمل کی وجہ سے میرے ساتھ الجھتے لڑتے بھڑتے ،تندو تیز اور معاندانہ رویہ اور سلوک روارکھتے  ہیں:"كَانَ لَهُ إمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ"

امام محمد رحمۃ اللہ علیہ  کی روایت پیش کرتے ہیں:

"عن جابر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : { من صلى خلف الامام.... مَنْ كَانَ لَهُ إمَامٌ" (موطا امام محمد)

براہ کرم اس روایت کے بارے میں مکمل تحقیق سے بہرہ ور فرمائیں بہت ہی شکر گزار ہوں گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو! آمین۔

براہ کرم اس کا جواب رسالہ" الحدیث "میں شائع کر کے شکریہ کا موقع دیں۔(عبد اللطیف کھوکھر ،راولپنڈی کینٹ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث:"كَانَ لَهُ إمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ" کے مفہوم والفاظ کے ساتھ مختلف سندوں سے مروی ہے ۔یہ سندیں دوطرح کی ہیں۔

اول: وہ اسانید جن میں کذاب متروک سخت مجروح اور مجہول راوی ہیں مثلاً:

1۔ جابر الجعفي عن ابي الزبير عن جابر  بن عبدالله رضي الله عنه .....الخ" (سنن ابن ماجه:850)

جابر اجعفی:متروک دیکھئے کتاب الکنیٰ والا سماء للا مام مسلم (ق96 کنیۃ : ابو محمد) وکتاب الضعفاء والمتروکین للامام النسائی(98)"وقال الزيلعي وكذبه ايضا ايوب و زائدة" اور اسے ایوب (السختیانی )اور زائدہ نے کذاب کہا ہے(نصب الرایہ 1/345)

2۔ "حديث ابي هارون العبدي عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه.....الخ....رواه ابن عدي في الكامل"

(1/524ترجمہ اسماعیل بن عمرو رحمۃ اللہ علیہ ،ابو ہارون رحمۃ اللہ علیہ  متروک ہے۔ دیکھئے کتاب الضعفاء والمترکین للنسائی (746)

ابو ہارون رحمۃ اللہ علیہ  کے بارے میں زیلعی حنفی نے حماد بن زید کا قول نقل کیا ہے کہ"کان کذاباً"یعنی وہ کذاب (بڑا جھوٹا) تھا۔ دیکھئے نصب الرایہ (ج4ص201)

3۔ "قال الدارقطني : هذا حديث منكر ، وسهل بن العباس متروك"

اصول حدیث میں یہ مقرر ہے کہ متروک وغیرہ سخت مجروح راویوں کی روایت مردود ہوتی ہے۔ مثلاً حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں:

"لان الضعف يتفاوت فمنه مالا يزول بالمتابعات يعني لا يؤثر كونه تابعاً او متبوعاً كرواية الكذابين والمتروكين"

کیونکہ ضعف کی قسمیں ہوتی ہیں، بعض ضعف متابعات سے بھی زائل نہیں ہوتے جیسےکذابین ومتروکین کی روایت یہ نہ مؤید ہو سکتی ہے اور نہ تائید میں فائدہ دیتی ہے۔"(اختصار علوم الحدیث ص38تعریفات اخری للحسن ،النوع :2)

اس تمہید کے بعد اس روایت "مَنْ كَانَ لَهُ إمَامٌ"کی ان سندوں پر جامع بحث پیش خدمت ہے جن پر مخالفین قرآءت فاتحہ خلاف الامام کو ناز ہے۔واللہ ھو الموفق )

1۔محمد بن الحسن الشيباني:اخبرنا ابوحنيفة قال:حدثنا ابو الحسن موسي ابن ابي عائشة عن عبدالله بن شداد بن الهاد عن جابر بن عبدالله "الخ(مؤطا الشیبانی ص98ح117)

اس روایت میں عبد اللہ بن شداد  رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے درمیان "ابو الولید" کا واسطہ ہے۔دیکھئے کتاب الآثارالمنسوب الی قاضی ابی یوسف(113)

وسنن الدارقطنی(1/325ح1223)وقال :ابو الولید ھذا مجہول )وکتاب القرآءۃ للبیہقی (ص125ح 314،وص126،127دوسرا نسخہ ح339،341)

معلوم ہوا کہ یہ روایت ابو الولید (مجہول )کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔ اس مجہول راوی کو بعض راویوں نے سند میں ذکر نہیں کیا تاہم یہ معلوم ہے جس نے ذکر کیا، اس کی بات ذکر نہ کرنے والے کی روایت پر مقدم ہوتی ہے۔

اس روایت میں دوسری علت یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  بذات خود اپنی اس بیان کردہ روایت کو باطل سمجھتے تھے۔ عبد الرحمٰن المقری رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔

"كان أبو حنيفة يُحدثنا، فإذا فرغ من الحديث، قال: «هذا الذي سمعتم كله ريحٌ وباطلٌ"

"ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  ہمیں حدیثیں سناتے تھے۔ جب حدیث (کی روایت)سے فارغ ہوئے تو فرماتے ۔یہ سب کچھ جو تم نے سنا ہے ہوا اور باطل ہے۔(کتاب الجرح والتعدیل لا بن ابی حاتم ج8ص450وسندہ صحیح)

ایک دوسری روایت میں امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"میں تمھیں جو عام حدیثیں بیان کرتا ہوں وہ غلط ہوتی ہیں۔"(العلل الکبیر للترمذی ج2ص966وسندہ صحیح والکامل لابن عدی 7/2473،تاریخ بغداد 13/425)

ایک دوسری روایت میں امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی کتابوں کے بارے میں فرمایا:

"والله ما أدري لعله الباطل الذي لا شك فيه"

اللہ کی قسم! مجھے(ان کے حق ہونے کا )پتا نہیں ہو سکتا ہے کہ یہ ایسی باطل ہوں جن کے (باطل ہونے میں) کوئی شک نہیں ہے۔"(کتاب المعرفۃ والتاریخ للامام یعقوب بن سفیان الفارسی ج2ص782وسندہ حسن )

اور یہ بات عام لوگ بھی بخوبی سمجھ سکتے ہیں امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ اپنی بیان کردہ حدیثوں اور کتابوں کے بارے میں بعد والوں کی بہ نسبت زیادہ جانتے تھے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ابو الولید (مجہول )کی وجہ سے امام صاحب نے اپنی روایت کو باطل قراردیا ہو۔واللہ اعلم وعلمہ اتم۔

2۔"احمد بن حنبل رحمة الله عليه:"حدثنا اسود بن عامر:اخبرنا حسن بن صالح عن ابي الزبير عن جابر...الخ"

(مسند احمد الموسوعہ الحدیثیۃ 23/12ح14643)

یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے۔

اول:ابو الزبیر المکی مدلس ہیں بلکہ "مشہور بالتدلیس "ہیں۔(طبقات المدلسین المرتبہ الثالثہ 3/101)یہ روایت عن سے ہے۔ اصول حدیث میں یہ مقرر ہے کہ مدلس کی(غیر صحیحین میں)عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔(دیکھئے مقدمۃ ابن الصلاح مع القید والا یضا ح ص99،والنسخہ المحققۃ ص161)

دوم:حسن بن صالح اور ابو الزبیر کے درمیان جابر الجعفی (متروک) کا واسطہ ہے۔دیکھئےمسنداحمد (ج3ص339ح14698)والتحقیق فی اختلاف الحدیث لابن الجوزی(1/320ح527)

تنبیہ:یہ بات انتہائی حیران کن ہے کہ ابن الترکمانی حنفی نے ابو الزبیر کی تدلیس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس ضعیف ومردود روایت کو"وھذا سند صحیح " لکھ دیا ہے۔(دیکھئے الجوہر النقی (2/159)بحوالہ ابن ابی شیبہ (1/377ح3802)

شیخ ناصر الدین الالبانی رحمۃ اللہ علیہ  نے دلائل کے ساتھ ابن الترکمانی کا زبردست رد کیا ہے۔دیکھئے ارواء الغلیل (ج2ص270ح500)

3۔"احمد بن منيع:"حدثنا اسحاق الازرق:ثنا سفيان وشريك عن موسيٰ ابن ابي عائشة رضي الله تعالي عنها عبدالله بن شداد عن جابر رضي الله عنه..."الخ (اتحاف الخیرةالمهره للبوصیری 2/225ح1567)

یہ روایت دووجہ سے ضعیف ہے۔

اول:سفیان ثوری مدلس ہیں( عمدۃ القاری للعینی 3/112)باب الوضوء من غیر حدث والجوہر النقی 8/262)نیز دیکھئے الحدیث :1ص28،29اور یہ روایت عن سے ہے۔ شریک القاضی بھی مدلس ہیں(طبقات المدلسین 56/2،جامع التحصیل للعلائی ص107والمدلسین لابی زرعہ بن العراقی :28والمدلسین للسیوطی :24والمدلسین للحلبی ص33)اور یہ روایت عن سے ہے۔

دوم:سابقہ صفحے پر یہ گزر چکا ہے کہ عبد اللہ بن شداد  رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے درمیان ابو الولید (مجہول) کا واسطہ ہے۔

نتیجۃ البحث:یہ روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ہے لہٰذا شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ  کا اسے"حسن "(ارواءالغلیل 2/268)اور الموسوعۃ الحدیثیہ کے محشی کا"حسن بطرقہ وشواہدہ"کہنا صحیح نہیں ہے۔اس حدیث کو حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ نے معلول (التلخیص  الحبیر2/232ح345)اور قرطبی نے ضعیف قرار دیا ہے۔(تفسیر قرطبی 1/122الباب الثانی فی نزو لھاواحکا مہا ای سورۃ الفاتحہ)

فائدہ:ہمارے شیخ امام ابو محمد بدیع الدین لراشدی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس حدیث کی تصنیف پر

"اظهار البراة عن حديث: :"كَانَ لَهُ إمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ"

مستقل کتاب لکھی ہے۔ والحمدللہ۔(6/محرم 1426ھ) (الحدیث:11)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ326

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ