سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(130) ’’ جب امام پڑھے تو خاموش رہو‘‘ والی حدیث

  • 21023
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1038

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام پڑھے تو خاموش رہو۔(صحیح مسلم ج1ص73ح404/63)(عبد الستار سومرو کراچی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی شیخ الاسلام محبوب المومنین الحدیث الفقیہ المجاہد صحابی رسول سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ہیں۔

(صحیح مسلم:404وابن ابی داؤد 604وسنن نسائی:922،923بتحقیقی وھو حدیث صحیح)سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے عبد الرحمٰن بن یعقوب  رحمۃ اللہ علیہ  نے پوچھا:میں امام کی قرآءت سن رہا ہوں تو انھوں نے فرمایا:اسے (سورۃ فاتحہ کو)اپنے دل میں(یعنی سراً )پڑھ دیکھئے مسند الحمیدی (بتحقیقی :980،ونسخہ دیوبند یہ:974بتحقیق حسین سلیم اسد ج2ص 198ح1004)اور مسند ابی عوانہ(ج2ص128وسندہ نسخہ جدیدہ1/357،)

معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعد سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سری اور جہری نمازوں میں فاتحہ خلف الامام کے قائل تھے۔ لہٰذا ان کی بیان کردہ حدیث کے دوہی مفہوم ہو سکتے ہیں۔

1۔یہ ماعداالفاتحہ پر محمول ہے یعنی (جہری نماز میں)قرآءت امام کی صورت میں فاتحہ پڑھی جائے گی اور اس کے علاوہ باقی قرآن نہیں پڑھا جائے گا۔یہی تحقیق امیرالمومنین فی الحدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کی ہے۔ دیکھئے جزء القرآءت (ص63ح264)

2۔ یہ حدیث منسوخ ہے۔

آل تقلید کا یہ اصول بہت مشہور ہے کہ اگر راوی اپنی روایت کے خلاف عمل کرے یا فتوی دے تو اس کی روایت منسوخ ہو گی۔

مثلاً دیکھئے محمد منصور علی تقلیدی کی کتاب فتح المبین (ص63۔64)

اصول محدثین کی روسے شق اول راجح ہے جبکہ اہل الرائے کے اصول سے شق ثانی مختصر یہ کہ اصول محدثین واصول اہل الرائے دونوں کی روسے اس حدیث سے فاتحہ خلف الامام کے خلاف استدلال مردود ہے۔ (شہادت فروری 2000ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ309

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ