سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(3) قرآن مخلوق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے

  • 20896
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 3942

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(1) ۔انور شاہ کشمیری دیوبندی کے ملفوظات میں لکھا ہوا ہےکہ:

"واضح ہوکہ حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  بھی قیام حوادث حرف وصوت وغیرہ ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مانتے ہیں۔۔۔حافظ ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی اپنے عقیدہ نونیہ میں کلام باری کو حرف وصوت سے مرکب کہا جس کا رد علامہ کوثری نے"تعلیقات السیف الصقیل" میں کیا ہے اور وہاں شیخ عز الدین ودیگر اکابر امت کےفتاویٰ نقل کردیے ہیں۔۔۔ان فتاویٰ سے  ثابت ہوا کہ جس نے خدا کو متکلم بالصوت والحروف کہا اُس نے خدا کے لیے جسمیت  ثابت کی جو کفر ہے ۔"(ملفوظات علامہ سیدانور شاہ کشمیری ص200)

1۔کیا واقعی اللہ کے کلام کو حرف صورت سے مرکب ماننا جسمیت ثابت کرناہے؟

2۔اللہ کی صفت کلام کے بارے میں کتاب و سنت کی روشنی میں سلف صالحین کا عقیدہ ومنہج کیا رہا ہے؟

(2)انہیں ملفوظات میں ایک اور جگہ لکھا ہے:"حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا کہ عرش قدیم ہے،کیونکہ استواء(بمعنے جلوس واستقرار) ہے اس پر خدا کا ،حالاں کہ حدیث ترمذی  میں خلق عرش مذکور ہے۔۔۔اور درس حدیث دیوبند کے  زمانہ میں حضرت  رحمۃ اللہ علیہ  نے علامہ ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  کے استواء بمعنی واستقراروجلوس مراد لینے پر سخت نقد کیا تھا۔" (ملفوظات۔۔۔ص203)

1۔کیا انور شاہ کشمیری دیوبندی کی درج بالا مسائل عقائد کے ضمن میں شیخ الاسلام  امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  پر جرح تنقید درست ہے؟حتیٰ کہ انور شاہ کشمیری صاحب کاکہنا ہے کہ"علامہ ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  بہت بڑے عالم ومتبحر ہیں مگر وہ استقرار وجلوس خداوندی کا عقیدہ لے کر آئیں گے تو ان کو یہاں دار الحدیث میں داخل نہ ہونے دوں گا۔"(ملفوظات۔۔۔ص 220)(شعیب محمد،سیالکوٹ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

الحمدلله رب العالمین  والصلوٰة والسلام علی رسوله الامین،اما بعد!

یہ عقیدہ بالکل صحیح اور برحق ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کاکلام ہے اور مخلوق نہیں ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَإِن أَحَدٌ مِنَ المُشرِكينَ استَجارَكَ فَأَجِرهُ حَتّىٰ يَسمَعَ كَلـٰمَ اللَّهِ... ﴿٦﴾... سورةالتوبة

اور اگر مشرکین میں سے کوئی ایک تجھ سے پناہ مانگے تو اُسے پناہ دے دو ،حتیٰ کہ وہ اللہ کاکلام سن لے۔(سورۃ التوبہ:6)

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   لوگوں کے سامنے جو قرآن پڑھتے تھے ،وہ اللہ کا کلام ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے بارے میں فرمایا:

﴿وَإِنَّهُ لَتَنزيلُ رَبِّ العـٰلَمينَ ﴿١٩٢﴾... سورةالشعراء

"اور بے شک یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے"

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

«ألا رَجُلٌ يَحْمِلُنِي إِلَى قَوْمِهِ ؟ فَإِنّ قُرَيْشاً قَدْ مَنَعُونِي أَن أُبَلّغَ كَلاَمَ رَبّي»

"کیا کوئی آدمی  مجھے اپنی قوم کے پاس نہیں لے جاتا؟کیونکہ قریش نے مجھے اپنے رب کا کلام(لوگوں تک) پہنچانے سے روک دیا ہے۔

(سنن ابی داود:4734 وسندہ صحیح،الترمذی :2925 وقال:"حسن صحیح غریب"قلت:سالم بن ابی الجعد مذکور فی المدلسین ولا یثبت ھذا عنہ،انظر الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین ص39)

سیدنا ابوبکر الصدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے قر آن مجید کو اللہ کا کلام کہا۔(دیکھئے کتاب الاسماء والصفات للبیہقی ص 239،240 وسندہ حسن ،وقال البیہقی:"وھذا اسناد صحیح"دوسرا نسخہ ص 309)

جب سورۃ الروم کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تو مشرکین مکہ نے سیدنا ابوبکر الصدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا:یہ تیرا کلام ہے یا تیرے ساتھی کاکلام ہے؟تو انہوں نے فرمایا:نہ یہ میرا کلام ہے اور نہ میرے ساتھی کا کلام بلکہ یہ تو اللہ عزوجل کاکلام ہے۔

(کتاب الاعتقاد للبیہقی تحقیق احمد بن ابراہیم ص108،وسندہ حسن،عبدالرحمان بن ابی الزناد وحسن الحدیث وثق الجمہور،الاسماء والصفات للبیہقی ص 239،240 دوسرا نسخہ ص309 تیسرا نسخہ ص 179 ،180 وقال البیہقی:"وھذا اسنادصحیح")

امام سفیان بن عیینہ المکی  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 198ھ) نے فرمایا:میں نے ستر(70) سال سے اپنے استاذوں کو جن میں عمرو بن دینار(ثقہ تابعی  رحمۃ اللہ علیہ  متوفی 126ھ) بھی تھے،یہی کہتے ہوئے سنا ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور مخلوق نہیں ہے۔(خلق افعال العباد للامام البخاری ص7 فقرہ:1،وسندہ صحیح)

مشہور امام جعفر صادق  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 148ھ) نے قرآن کے مخلوق ہونے کی نفی کی اور فرمایا:لیکن وہ اللہ کا کلام ہے۔(مسائل ابی داود ص 265وسندہ حسن،الشریعۃ للآجری ص77 ح 159،الاعتقاد للبیہقی ص 107،وقال:"فھو عن جعفر صحیح مشہور")

امام مالک بن انس المدنی  رحمۃ اللہ علیہ  قرآن کو اللہ کا کلام کہتے اور اُس شخص کا شدید رد کرتے جو قرآن کو مخلوق کہتا تھا،امام مالک فرماتے کہ اُسے مارمار کر سزاد ی جائے اور قید میں رکھا جائے یہاں تک کہ وہ مرجائے۔(الشریعہ ص 79 ح66 ،وسندہ حسن)

امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا :جو شخص قرآن کو مخلوق کہے تو وہ کافر ہے ۔(حلیۃ الاولیاء 9/113،وسندہ حسن)

امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  نے اُس شخص کو کافر کہا ہے جس نے قرآن کو مخلوق کہا۔(دیکھئے مسائل ابی داود ص 262 وھو صحیح ثابت)

امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

" فأخبر أن القرآن من علمه وأن الإنسان من خلقه وعلم الله غير مخلوق والقرآن علم الله فهو غير مخلوق "

"قرآن اللہ کے علم سے ہے اور اللہ کا علم مخلوق نہیں اور قرآن اللہ کا کلام ہے،مخلوق نہیں۔

(المحسہ روایۃ صالح بن احمد بن حنبل ص 69  بحوالہ العقیدۃ السلفیہ ص106)

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  نے مزید فرمایا:جو شخص لفظي بالقرآن مخلوق (قرآن کے ساتھ میرا لفظ مخلوق ہے) کا دعویٰ کرے تو وہ جہمی ہے۔(مسائل ابن ہانی ج2 ص152 ،فقرہ:1853)امام احمد  رحمۃ اللہ علیہ  نے لفظي بالقرآن مخلوق کہنے والے کے بارے میں فرمایا:"اس كے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے اور اس کے پاس نہیں بیٹھنا چاہیے،اس سے کلام نہیں کرنا چاہیے اور اسے سلام نہیں کرنا چاہیے۔(مسائل ابن ہانی ج2 ص 152،فقرہ:1851)

نیز امام احمد  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"القرآن علم من علم الله ، فمن زعم أن علم الله مخلوق فهو كافر"

"قرآن اللہ کے علم میں سے علم ہے لہذا جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ قرآن مخلوق ہے تو وہ کافر ہے۔(مسائل ابن ہانی ج2 ص 154،فقرہ:1863)

امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:جہمیہ کے تین فرقے ہیں:

1۔ایک فرقہ قرآن کو مخلوق کہتا ہے ۔

2۔دوسرا فرقہ کلام  اللہ کہہ کر سکوت کرتا ہے۔

3۔تیسرا فرقہ کہتا ہے کہ قرآن کے ساتھ ہمارے الفاظ مخلوق ہیں۔الخ

(المحسہ روایۃ  صالح بن احمد بن حنبل ص 72 بحوالہ العقیدۃ السلفیہ فی کلام رب البریہ ص204)

امام عبداللہ بن ادریس بن یزید الکوفی  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 192ھ) نے اُن لوگوں کو زنادقہ(بے دین ،ملحدین ،بے ایمان اور کفار) قرار دیا جو قرآن کو مخلوق کہتے تھے۔

دیکھئے خلق افعال العباد للبخاری(ص8 فقرہ:5 وسندہ صحیح)

امام وہب بن جریر بن حازم  رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی 206ھ) نے فرمایا:

قرآن مخلوق نہیں ہے۔(مسائل ابی داود ص 266 وسندہ صحیح)

امام ابوالنضر ہاشم بن القاسم  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 207ھ) نے فرمایا:

قرآن اللہ کا کلام ہے ،مخلوق نہیں ہے۔(مسائل ابی داود ص 266 وسندہ صحیح)

امام ابو الولید الطیالسی  رحمۃ اللہ علیہ ( متوفی 227ھ) نے فرمایا:

قرآن اللہ کا کلام ہے اور اللہ کا کلام مخلوق نہیں ہے۔(مسائل ابی داود ص 266 وسندہ صحیح)

بلکہ امام ابو ولید نے  مزید فرمایا:جو شخص دل سےیہ عقیدہ نہ رکھے کہ قرآن مخلوق نہیں ہے تو وہ اسلام سے خارج(یعنی کافر) ہے۔(مسائل ابی داود ص266 وسندہ صحیح)

مشہور قاری اور موثق عند الجمہور امام ابوبکر بن عیاش الکوفی  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 194ھ) نے فرمایا :جو شخص تمہارے سامنے قرآن کومخلوق کہے تو وہ ہمارے نزدیک کافر،زندیق (اور) اللہ کا دشمن ہے ،اس کے پاس نہ بیٹھو اور اس سے کلام نہ کرو۔(مسائل ابی داود ص 267 وسندہ صحیح)

ثقہ اور متقن قاضی معاذ بن معاذ  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 196ھ) نے فرمایا:

جو شخص قرآن کو مخلوق کہے تو وہ اللہ عظیم کا کافر ہے۔(مسائل ابی داود ص ،268267 وسندہ صحیح)

امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  کے مشہور شاگرد امام ابو یعقوب یوسف بن یحییٰ البویطی  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 231ھ)نے فرمایا:جو شخص قرآن کو مخلوق کہے تو وہ کافر ہے۔(مسائل ابی داود ص 2686 وسندہ صحیح)

امام احمد بن عبداللہ بن یونس  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 227ھ) نے فرمایا:جو شخص قرآن کو مخلوق کہے تو اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے ،یہ کفار ہیں۔(مسائل ابی داود ص 268 وسندہ صحیح)

اس قسم کے حوالے بے حد شمار ہیں جن سے ثابت ہوا کہ اہل سنت کے اجماع اور اتفاق سے یہ عقیدہ ثابت ہے کہ مسلمانوں کے پاس موجود:قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے،مخلوق نہیں ہےاور اسے مخلوق کہنے والا کافر ہے۔یہ وہی قرآن مجیدہے جو اللہ تعالیٰ نے  جبریل امین  علیہ السلام  کے ذریعے سے خاتم النبیینؐ اور رحمۃ اللعالمین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر نازل فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  تک پہنچادیا،صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے تابعین  رحمۃ اللہ علیہ  تک اور تابعین  رحمۃ اللہ علیہ  نے تبع تا بعین  رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچادیا۔یہ وہی قرآن ہے جسے حفاظ کرام ن یاد کررکھا ہے ،مصاحف میں لکھا ہوا ہے اور امت مسلمہ جس کی تلاوت کرتی ہے۔

اس عقیدے پر مفصل تحقیق کے لیے اہل سنت کی کتب العقائد مثلاً خلق افعال العباد،الشریعہ للآجری اور الاعتقاد للبیہقی وغیرہ کی طرف رجوع فرمائیں۔

نیزدیکھئے السنن الکبریٰ للبیہقی(10/206،207)

حافظ ابن عبدالبر نے اس مسئلے پر اہل سنت کااجماع نقل کیا ہے۔دیکھئے التمہید (21/241)

امام الحرمین کے والد ابو محمد عبداللہ بن یوسف الجوینی الشافعی الفقیہ  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 438ھ) نے اس مسئلے پر ایک رسالہ لکھا ہے:

"رسالة في إثبات الاستواء والفوقية ومسألة الحرف والصوت في القرآن المجيد"

دیکھئے مجموعۃ الرسائل المنیریہ(1/174۔187)

شیخ ابو محمد الجوینی الفقیہ نے فرمایا:

"والتحقيق هو: أن الله تكلم بالحروف، كما يليق بجلاله وعظمته؛ فإنه قادر، لا يحتاج إلى جوارح، ولا إلى لهوات؛ وكذلك: له صوت كما يليق به، يسمع، ولا يفتقر ذلك الصوت المقدس، إلى الحلق والحنجرة؛ كلام الله يليق به، وصوته كما يليق به؛ ولا ننفي الحروف والصوت عن كلامه، لافتقارهما هنا إلى الجوارح، واللهوات، فإنهما في جناب الحق: لا يفتقران إلى ذلك، وهذا ينشرح الصدر له، ويستريح الإنسان به، من التعسف والتكلف؛"

"اور تحقیق یہ ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے حروف کے ساتھ کلام فرمایا جیسا کہ اس کے جلال اور عظمت کے لائق ہے،کیونکہ وہ قادر ہے اور قادر مطلق کو اعضاء اور حلق کے کوے کی حاجت نہیں ہوتی اور اسی طرح اُس(کے کلام) کی سُنی جانے والی آواز ہے جیسا کہ اُس کے لائق ہے اور یہ مقدس آواز حلق اور نرخرے کی محتاج نہیں،اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جیسا کہ اُس کے لائق ہے اور اس(کلام) کی آواز ہے جیسا کہ اُس کے لائق ہے۔ہم اللہ سبحانہ کے کلام سے حرف وصوت کی نفی(انکار) اس وجہ سے نہیں کرتے کہ ہم اعضاء اور حلق کے کوؤں کے محتاج ہیں (بلکہ ان صفات کا اقرار کرتے ہیں) کیونکہ حق تعالیٰ کی جناب(ذات) ان چیزوں کی محتاج نہیں ہے اور یہ وہ بات ہے جس پر شرح صدر ہوتا ہے اور تعسف وتکلف سے (دوررہ کر) انسان کو آرام پہنچتا ہے۔۔۔(مسالۃ الحروف والصوت ص11،الرسائل المنیریہ 1/184)

ابراہیم نخعی نے ابو العالیہ الریاحی کی تعلیم القرآن میں احتیاط کےبارے میں فرمایا:

"أَظُنُّ صَاحِبَكُمْ قَدْ سَمِعَ، أَنَّهُ مَنْ كَفَرَ بِحَرْفٍ مِنْهُ، فَقَدْ كَفَرَ بِهِ كُلِّهِ"

میں سمجھتا ہوں کہ تمہارے ساتھی نے یہ سنا ہے کہ جس نے قرآن کے ایک حرف کا انکار کیاتو اس نے سارے قرآن کا انکار کیا۔(مصنف ابن ابی شیبہ ج10 ص513 ح30100 وسندہ صحیح)

علمائے اہل سنت کی ان واضح تصریحات کے مقابلے میں زاہد بن حسن بن علی (رضا) بن خضوع بن بائی بن قانبت بن قنصوا لبحر کسی الکوثری نے بغیر کسی شرم وحیا کے لکھا:

"والواقع أن القرآن في اللوح، وفي لسان جبريل عليه الصلاة والسلام، وفي لسان النبي صلى الله عليه وسلم وألسنة سائر التالين، وقلوبهم، وألواحهم، مخلوق حادث محدث ضرورة، ومن ينكر ذلك يكون مسفسطا ساقطا من مرتبة الخطاب وانما القديم هو المعني القائم بالله سبحانه يعني الكلام النفسي في علم الله جل شانه في نظر احمد بن حنبل وابن حزم وقد صح عن احمد قوله في المناظرة:القرآن من علم الله وعلم الله غير مخلوق"

"اور واقعی یہ ہے کہ لوح محفوظ ،زبان جبریل  علیہ السلام  زبان نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  اور تمام تلاوت قرآن کرنے والوں کی زبانوں ،دلوں اورتختیوں پر قرآن مخلوق حادث ہے جو کہ ضروریات(بدیہی حقیقتوں) کامسئلہ ہے۔جو شخص اس کا انکار کرتا ہے تو وہ بدیہات کا منکر اور وہمیات کا قائل ہے ،وہ اُس مرتبے سے ساقط ہے کہ اُس سے گفتگو کی جائے۔قدیم تو وہ معنی ہے جو اللہ سبحانہ کے ساتھ قائم ہے ،احمد  بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  اور ابن حزم  کی نظر میں وہ اللہ جل شانہ کے علم میں کلام نفسی کے معنی میں ہے۔احمد سے صحیح ثابت ہے کہ انھوں نے مناظرے میں کہا:قرآن اللہ کے علم میں سے ہے اور اللہ کا علم مخلوق نہیں ہے۔(مقالات الکوثری:بدعۃ الصوتیہ حول القرآن ص27)

کوثری کے اس تلبیسانہ کلام سے معلوم ہوا کہ کوثری جرکسی کے نزدیک وہ قرآن مخلوق ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے سامنے تلاوت کرتے تھے،جبریل امین جو قرآن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کوسناتے تھے وہ کوثری کے نزدیک مخلوق ہے بلکہ لوح محفوظ میں جو قرآن لکھا ہوا ہے وہ بھی کوثری کے نزدیک مخلوق ہے۔!

علمائے اہل سنت کے اجماعی اور متفقہ فتاویٰ میں سے بعض کے حوالے آپ کے سامنے  پیش کردیے گئے ہیں کہ قرآن کو مخلوق کہنے والاکافر ہے۔

حنفیوں کی کتاب شرح عقیدہ طحاویہ میں لکھا ہے کہ قرآن مجید اللہ کاکلام ہے،جسے اُس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  پر بطور وحی نازل فرمایا،یہ حقیقت میں اللہ کاکلام ہے مخلوق نہیں ہے،جو شخص اسے سُن کر سمجھے کہ یہ انسان کا کلام ہے تو اُس نے کفر کیا،اللہ نے ایسے شخص کے ساتھ جہنم کے عذاب کا وعدہ کررکھا ہے۔دیکھئے شرح عقیدہ طحاویہ مع شرح ابن ابی العزالحنفی(ص 179،مختصراً)

معلوم ہوا کہ جس قرآن کو جبریل امین  علیہ السلام  لے کر آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے لوگوں کے سامنے اُس کی تلاوت کی ،جو لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے اور جسے تلاوت کرنے والے تلاوت کرتے ہیں،اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں ہے۔

بعض لوگوں نے کلام نفسی اور کلام لفظی کی بدعت نکالی اور لفظی بالقرآن مخلوق کانعرہ لگایا تو امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  نے ایسے لوگوں کو جہمیہ سے زیادہ شریر قرار دیا۔دیکھئے مسائل ابی داود(ص 271)

تنبیہ:امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  سے"لفظي بالقرآن مخلوق" کا قول باسند  صحیح ثابت نہیں ہے لہذا بجنوری وغیرہ نے اس سلسلے میں اُن کی  طرف جو کچھ منسوب کیا ہے ،وہ سب جھوٹ کا پلندہ ہے۔

امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا: "القرآن كلام الله غير مخلوق"اورقرآن اللہ کا کلام ہے ،مخلوق نہیں ہے۔(خلق افعال العباد ص 23 فقرہ:112)

الامام الصدوق (عندالجمہور) امام نعیم بن حماد  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"قال نعيم بن حماد : " لا يستعاذ بالمخلوق ، ولا بكلام العباد والجن والإنس والملائكة ".

مخلوق،بندوں کے کلام،جن ،انس اور ملائکہ کے ساتھ پناہ نہیں مانگی جاتی یعنی مخلوق کے ساتھ پناہ نہیں مانگنی چاہیے۔

اس کے راوی امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:(نعیم بن حماد کے) اس قول میں دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کاکلام مخلوق نہیں اور اس کے سوا دوسری مذکورہ چیزیں مخلوق ہیں۔(خلق افعال العباد ص 89 فقرہ:438)

امام ابو القاسم اسماعیل بن محمد بن الفضل التیمی الاصبہانی :قوام  رحمۃ اللہ علیہ  السنۃ  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 535ھ) نے اصحاب الحدیث اور اہل السنہ سے نقل کیا کہ اس وقت مصاحف میں لکھا ہوا قرآن ،جو سینوں میں محفوظ ہے،وہی حقیقاً اللہ کاکلام ہے سے اُس نے بذریعہ جبریل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  تک اور بذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  تک پہنچادیا۔

دیکھئے الحجہ فی بیان المحجہ وشرح عقیدہ اہل السنہ(ج1ص 368)

کوثری نے"قائم باللہ" (یعنی الکلام النفسی) کی مبتدعانہ اصطلاح اختیار کرکے "کلام نفسی" کی بدعتی اصطلاح کوہی رواج دیا اور امام احمد وابن حزم کا ذکر صرف دھوکا دینے اور رعب جمانے کے لیے کیا ہے،کیونکہ اللہ کے علم میں سے ہونے کامطلب صرف یہ ہے کہ قرآن اللہ کاکلام ہے اور مخلوق نہیں ہے۔امام احمد نےلفظیہ کو جہمیہ سے زیادہ شریر قراردیا تھا جیسا کہ سابقہ صفحات میں گزر چکاہے اور آپ اُس شخص کو کافر کہتے تھے جوقرآن کو مخلوق کہتا تھا۔علامہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:

"والقرآن كلام الله وعلمه غير مخلوق"

"اور قرآن اللہ کا کلام اور علم ہے مخلوق نہیں ہے۔(المحلی ج1ص 32 مسئلہ:58)

بلکہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ  نے مصاحف میں لکھے ہوئے،قاری سےسنے جانے والے،سینوں میں محفوظ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دل پر جبریل کے ذریعے سےنازل کردہ قرآن کو اللہ کا کلام حقیقتاً قرار دیا اور مجاز کی نفی کی،جو شخص قرآن کو مخلوق سمجھتا ہے اُس کے بارے میں ابن حزم نے کہا:"فقد کفر" یقیناً اُس نے کفر کیا۔(المحلی 1/32 مسئلہ:59)

معلوم ہوا کہ کوثری نے امام احمد  رحمۃ اللہ علیہ  اور علامہ ابن حزم  رحمۃ اللہ علیہ  دونوں پر جھوٹ بولا اور فلسفیانہ سفطے کو عام سادہ لوح مسلمانوں میں پھیلانے کی کوشش کی ہے۔امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  نے لفظیہ فرقے(جوکوثری کی طرح کلام لفظی اور کلام نفسی کی بدعات نکالتے ہیں)کے بارے میں فرمایا:یہ لوگ صرف جہم(ایک بہت بڑے گمراہ اور بے ایمان) کے کلام پر ہی گھوم رہے ہیں۔الخ(مسائل ابی داود ص 271 ،وسندہ صحیح)

اس مسئلے(قرآن کے کلام اللہ ہونے اور مخلوق نہ ہونے) پرتفصیلی تحقیق کے لیے شیخ عبداللہ یوسف الجدیع العراقی حفظہ اللہ کی عظیم کتاب:

"العقيدة السلفية فى كلام رب البرية وكشف أباطيل المبتدعة الردية"

(کل صفحات 460) کا مطالعہ کریں۔شیخ عبداللہ بن یوسف الجدیع العراقی نے فرمایا:

سلف صالحین  رحمۃ اللہ علیہ  کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت کلام صفت ہے جو اس کے ساتھ قائم ہے،جدا نہیں،اس صفت کے ساتھ اُس کے موصوف ہونے کی نہ ابتدا ہے اور نہ انتہا،وہ اپنی مشیعت اور اختیار سے اس کے ساتھ کلام فرماتا ہے اور اس کا کلام سب سے بہترین کلام ہے،اس کاکلام مخلوق کے کلام سے مشابہ نہیں کیونکہ خالق کو مخلوق پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ،وہ اپنی مخلوق:فرشتوں ،اپنے رسولوں اور بندوں میں سے جس سے چاہتا ہے کلام فرماتا ہے،چاہے واسطے سے یا بغیر واسطے کے۔

وہ اپنے کلام کو حقیقی طور پر سُناتا ہے ،اپنے فرشتوں اور رسولوں میں سے جسے چاہے اور قیامت کے دن اپنی آواز سے بندوں کو سنُائے گا جیسے کہ اُس نے موسیٰ  علیہ السلام  سے کلام کیا اور اپنی آواز کے ساتھ پکارا جب وہ درخت کے پاس آئے تو اس آواز کو موسیٰ  علیہ السلام  نے سُنا۔

جس طرح اللہ کا کلام مخلوق کے مشابہ نہیں ہے اُسی طرح اُس کی آواز مخلوق کے مشابہ نہیں ہے۔اس کے کلمات کی کوئی انتہا نہیں اور اس کے کلام میں سے قرآن،تورات اور انجیل ہیں۔قرآن اپنی سورتوں ،آیتوں اور کلمات کے ساتھ اُس کا کلام ہے،اس نے حروف اور معانی کے ساتھ یہ کلام فرمایا اور(سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وسلم  سے پہلے کسی پر نازل نہیں فرمایا۔اُس نے اسے جبریل  علیہ السلام  کو سنایا،جبریل  علیہ السلام  نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کو سُنایا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی اُمت کو سُنادیا،جبریل  علیہ السلام  اور محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کلام کی تبلیغ کرکے آگے ادا کردیا(یعنی لوگوں تک پہنچادینے کا واسطہ بنے) یاد رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے قرآن مجید کی تشریح،توضیح اور تفسیر بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے سامنے بیان کردی جو احادیث کی صورت میں محفوظ ہے۔(والحمدللہ)

یہی قرآن لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے اور یہی مصاحف(لکھے ہوئے قرآنوں) میں ہے جسے تلاوت کرنے والے اپنی زبانوں سے تلاوت کرتے ہیں ،قاری اپنی آوازوں سے اس کی قراءت کرتے ہیں اور سامعین اپنے کانوں سے اسے سنتے ہیں،لکھنے والے اسے لکھتے ہیں اور شائع کرنے والے اپنے آلات کے ساتھ اسے شائع کرتے ہیں،یہی قرآن حفاظ کرام کے سینوں میں اپنے حروف اور معانی کے ساتھ محفوظ ہے،اللہ نے یہ کلام حقیقتاً فرمایا ہے اور یہ اُس کاحقیقی کلام ہے غیر کا  کلام نہیں،اُسی سے اس کی ابتدا ہوئی اور اسی کے پاس لوٹ جائے گا۔وہ ایک نازل شدہ قرآن ہے ،مخلوق نہیں ہے،جس طرح بھی اُس میں تصرف کیاجائے،قاری کی قراءت الفاظ پڑھنے والے کے الفاظ ،حافظ کا حفظ یاکاتب کا خط ہو،جہاں بھی اس کی تلاوت ہولکھا جائے یا پڑھا جائے۔

پھر جوشخص اس کو سننے کے بعد یہ سمجھے کہ یہ مخلوق ہے تو اس شخص نے کفر کیا(یعنی یہ شخص کافر ہے) اور اللہ نے موسیٰ  علیہ السلام  کے لیے آدم علیہ السلام  کی پیدائش سے چالیس سال پہلے اپنے ہاتھ سے تورات لکھی جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔

اللہ کے کلام کی تقسیم،حصص اور اجزاءہوسکتے ہیں ،پس قرآن اس کے کلاموں میں سے ہے،تورات اس کے کلام  میں سے ہے اورانجیل اُس کے کلام میں سے ہے،قرآن تورات کے علاوہ ہے اور تورات انجیل کے علاوہ ہے۔فاتحہ قرآن کا بعض ہے اور یہ آیتہ الکرسی سورۃ البقرہ کا بعض ہے،سورۃ البقرہ سورت آل عمران کےعلاوہ ہے اور اسی طرح اس کا سارا کلام ہے۔اللہ تعالیٰ نے مختلف لغات(زبانوں) میں کلام فرمایا لہذا تورات عبرانی زبان میں ہے،انجیل سریانی زبان میں ہے اور قرآن عربی زبان میں ہے۔قرآن میں ایسے معانی ہیں جو تورات میں نہیں ہیں اور تورات میں ایسی باتیں ہیں جو قرآن میں  نہیں ہیں اور اسی طرح اس کا سارا کلام ہے۔

اللہ تعالیٰ کے کلام میں بلحاظ،افضلیت درجے ہیں لہذااُس کا بعض دوسرے بعض سے ا فضل ہے ۔دوسری آیات سے آیت  الکرسی افضل ہے اور سورۃ فاتحہ جیسی سورت تورات اورانجیل میں نازل نہیں ہوئی اور نہ اس طرح دوسری کوئی سورت قرآن میں نازل ہوئی ہے،قل ھو ا للہ احد (سورۃ الاخلاص) ایک تہائی قرآن ہے۔

اللہ تعالیٰ کا کلام ایک دوسرے کے پیچھے آنا(یعنی باہم ترتیب کے ساتھ مربوط) ہے مثلاً بسم اللہ میں اللہ کا کلام بسم کے بعد ہے،سین باء کے بعد ہے اور میم سین کے بعد ہے ۔یہ سب اللہ کا کلام ہے،اپنے الفاظ اور حروف کے ساتھ مخلوق نہیں،مخلوق کے مشابہ نہیں ہے۔

(قرآن پڑھنے لکھنے کی حالت میں) بندوں کی آوازیں اور حرکات،مصحف کے ورقے ،جلد اور لکھنے کی سیاہی یہ سب مخلوق ہیں اور پڑھنے سنے لکھے جانے والے حروف اللہ کا کلام ہیں،اپنے حروف اور معانی کے لحاظ سے قرآن مخلوق نہیں۔

کلام اللہ کے بارے میں یہ سلف صالحین  رحمۃ اللہ علیہ  کا عقیدہ ہے۔

(العقیدۃ السلفیہ فی کلام رب البریہ وکشف اباطیل المبتدعۃ الردیہ ص63۔65 مترجماً ومفہوماً)

فرقہ اشعریہ کے امام ابو الحسن الاشعری  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 324ھ) نے فرمایا:

"قرآن اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں ہے۔"پھر انھوں نے اس پر کئی دلیلیں پیش کیں۔دیکھئے الابانہ عن اصول الدیانہ (ص 19۔21)

تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں بعض مبتدعین نے حرف اور صوت کا صریح انکار کرکے نیا مسئلہ کھڑاکردیا۔دیکھئے مجموع الفتاویٰ(12/579)

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

جس شخص نے کتاب اللہ میں سے ایک حرف پڑھا تو اسے ایک نیکی ملے گی جو دس نیکیوں کے برابر ہوگی،میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے ،لام ایک حرف ہے اور میم ایک  حرف ہے۔(سنن الترمذی:2910 وقال:"حذا حدیث حسن صحیح غریب"وسندہ حسن)

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:قرآن سیکھو اور اس کی تلاوت کرو،تمھیں ہر حرف کے بدلے میں دس نیکیاں ملیں گی۔الخ(المعجم الکبیر للطبرانی 9/140 ح8649 وسندہ حسن)

سیدنا ابو سعیدالخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

((فَيُنَادَى بِصَوْتٍ: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكَ"......))

"پھر وہ(اللہ) صوت(آواز) سے ندا فرمائے گا:بے شک اللہ تجھے حکم دیتا ہے۔۔۔(صحیح بخاری :7483)

فائدہ:۔

روایت مذکورہ کو اکثر راویوں نے معلوم(يُنَادَى)کے اعراب کےساتھ پڑھا ہے۔دیکھئے عمدۃ القاری (ج25ص154) اور فتح الباری(13/460)

یعنی جمہور راویوں کے نزدیک اس کا اعراب مجہول نہیں بلکہ معلوم(دال کی زیر) کے ساتھ ہے۔

اس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے ،اسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی مشہور کتاب "الجامع الصحیح" میں روایت کیا ہے جس کی صحت پر اُمت کا اتفاق ہے۔اسی حدیث کے حوالے سے اس کے راوی امام محمد بن اسماعیل البخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"وَفِي هَذَا دَلِيلٌ أَنَّ صَوْتَ اللَّهِ لا يشبه أَصْوَاتَ الْخَلْقِ....."

اور اس میں دلیل ہے کہ اللہ کی آواز(صوت) مخلوق کی آوازوں سے مشابہ نہیں ہے۔(خلق افعال العباد ص 92 فقرہ:462)

حدیث مذکور کی تشریح میں مولانا محمد داود رازدہلوی  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"یہاں سے اللہ کےکلام میں آواز ثابت ہوئی اور ان نادانوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں نہ آواز ہے نہ حروف ہیں۔معاذ اللہ اللہ کے لفظوں کو کہتے ہیں:یہ اللہ کے کلام نہیں ہیں کیونکہ الفاظ اور حروف اور اصوات سب حادث ہیں۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ یہ کم بخت لفظیہ جہمیہ سے بدتر ہیں۔"(شرح صحیح بخاری 8 ص 592 مطبوعہ قدوسیہ لاہور)

امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:جی ہاں!تیرے رب نے صوت(سُنی جانے والی آواز) کے ساتھ کلام فرمایا:الخ(کتاب السنہ ج 1 ص 280 رقم 533)

مزید عرض ہے کہ امام ابوبکر المروزی  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

(امام) ابو عبداللہ(احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  ) سے کہاگیا:عبدالوہاب  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا :جو شخص کہتا ہے کہ اللہ نے موسیٰ  علیہ السلام  سے بغیر صوت(آواز) کے کلام کیا تو وہ جہمی ہے،اللہ اور اسلام کا دشمن ہے۔(امام احمد  رحمۃ اللہ علیہ ) ابوعبداللہ نے مسکرا کر فرمایا:اس(عبدالوہاب) کا یہ قول کتنا بہترین ہے ،اللہ اُسے عافیت میں رکھے۔

السنہ للخلال بحوالہ درء تعارض العقل والعقل ج 1 ص 360 وسندہ صحیح،مطبوعہ:دارالحدیث القاہرہ/مصر)

حافظ ابو نصر عبیداللہ بن سعید بن حاتم بن احمد السجزی الوائلی  رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 444ھ) نے اپنے مشہور رسالے میں فرمایا:اس پر اتفاق ہے کہ کلام حرف اورصوت ہوتا ہے۔(درءتعارض العقل والنقل لابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  1/379)

السجزی نے فرمایا:قرآن عربی حروف ہیں۔۔۔اور اللہ کی صوت(آواز) میں مخلوق سے کوئی تشبیہ نہیں ہے جس طرح کہ اُس کی صفت کلام مخلوق سے مشابہ نہیں ہے۔حافظ السجزی  رحمۃ اللہ علیہ  نے مزید فرمایا:"

"فنقول: كلام الله حرفٌ وصوتٌ بحكم النص"

اور ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اللہ کا کلام حرف اور صورت(آواز) ہے جیسا کہ نص سے ثابت ہے۔(الابانہ فی مسآلۃ القرآن للسجزی بحوالہ درء تعارض العقل والنقل 1/383)

فائدہ:۔

شیخ السنۃ ابو نصر السجزی الوائلی  رحمۃ اللہ علیہ  کو بعض حنفی علماء نے اپنے"حنفی" علماء میں ذکر کیا ہے۔دیکھئے الجواہر المضیہ (1/338 ت 923) اور تاج التراجم(ص201 ت 56)حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  ،حافظ ابن القیم اور علمائے اہل سنت کا جورد زاہد الکوثری نے"تعلیقات السیف الصقیل"وغیرہ میں کیا ہے وہ مردود ہے۔کوثری بذات خود جہمی(بدعتی،غیرسُنی) اور مجروح تھا جیسا کہ اس کی  تصانیف اور تحریروں سے ثابت ہے۔فی الحال دس(10) دلیلیں پیش خدمت ہیں جن سے کوثری مذکور کا مجروح اور ساقط العدالت ہوناثابت ہوتا ہے:

1۔امام ابو الشیخ الاصبہانی  رحمۃ اللہ علیہ  کے بارے میں کوثری نے کہا:

"وقد ضعفه بلديه الحافظ العسال بحق ؟"

"اور یقیناً اس کے ہم وطن حافظ عسال نے اُسے ضعیف قرار دیا ہے جو کہ حق ہے۔(تانیب الخطیب ص49)

نیز دیکھئے تانیب الخطیب للکوثری(ص141)

ابو الشیخ مذکور کی تضعیف حافظ العسال سے ثابت نہیں ہے لہذا کوثری نے اُن پر جھوٹ بولا ہے۔یہ تضعیف نہ تو حافظ ابو احمد العسال کی کسی کتاب میں ہے اور نہ اسماء الرجال کی کس کتاب میں اُسے بحوالہ عسال مذکور نقل کیاگیا ہے۔

2۔شیخ سلیمان الصنیع رکن مجلس الشوریٰ بمکہ نے کوثری کے بارے میں گواہی دی:

"والذي يظهر لي أن الرجل يرتجل الكذب ويغالط"

اور میرے سامنے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آدمی فی البدیہ جھوٹ بولتا ہے اور مغالطے  دیتا ہے ۔

(حاشیۃ طلیعہ التنکیل بمافی تانیب الکوثری من الاباطیل ج1 ص 31 وسندہ قوی)

3۔حسام الدین القدوسی نے کوثری پر جرح کی اور کہا:

"فيخلق لهم من المحاسن والدفاع....."

"پس وہ ان لوگوں کی خوبیاں اور دفاع گھڑتا ہے۔(دیکھئے مقدمۃ الانتقاء لابن عبدالبر ص3)

4۔امام عبدالرحمان بن یحیٰ المعلمی  رحمۃ اللہ علیہ  نے کوثری پر جر ح کی اور حق کا دفاع کیا۔دیکھئے التنکیل بمافی تانیب الکوثری من الاباطیل للیمانی  رحمۃ اللہ علیہ

5۔احمد بن محمد بن الصدیق الغماری نے کوثری کے بارے میں کہا:"وانه شيطان" اوربے شک وہ شیطان ہے۔(بیان تلبیس المفتری محمد زاہد الکوثری ص124)

اور کہا:"ھذا الدجال "یہ دجال(بیان تلبیس المفتری ص139)

6۔شیخ محمد ناصر الدین الالبانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:کیونکہ کوثری اپنے بہت سے حوالوں میں قابل اعتماد نہیں،وہ تدلیس کرتا تھا۔(سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ 8/361 ح3897)

علامہ البانی   رحمۃ اللہ علیہ  نے کوثری کو اہل سنت اور اہل حدیث کا شدید دشمن قرار دیا ہے۔دیکھئے سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ (6/1272 ح3000)

اور نقل روایت میں غیر امین(یعنی ضعیف اور ساقط العدالت) قرار دیا۔(الضعیفہ 1/44ح25)

علامہ البانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:

"وإنه على سعة إطلاعه وعلمه مدلس صاحب هوى "

بے شک وہ(کوثری) وسعت علم اور اطلاع کے باوجود مدلس اور بدعتی ہے۔(الضعیفہ 3/356 ض1211)

7۔شیخ عبدالمحسن العباد کے صاحبزادے عبدالرزاق المدنی حفظہ اللہ نے کہا:

محمد زاہد کوثری ہمارے زمانے میں جہمیت کاقائد ہے۔

(القول السدید فی الرد علی من انکر تقسیم التوحید ،مقدمہ ص14،بحوالہ المکتبۃ الشاملۃ)

8۔محمد بہجہ البیطار علامۃ الشام(متوفی 1396ھ) نے کہا:

"الكوثري المحرف لآيات الكتاب المجيد" قرآن کی آیات کا محرف:کوثری(الکوثری وتعلیقانہ ص8 بحوالہ الشاملہ)

اور اسے تاریخ میں جھوٹ کو مباح سمجھنے والاقرار دیا۔(ایضاً ص13)

9۔شیخ دکتور شمس الدین الافغانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

"رافع لواء الجهمية و القبورية في آن واحد الكوثرى۔۔۔۔"

"کوثری قبر پرستوں کے اماموں میں سے ایک اور جہمیت کے جھنڈے کو اُٹھانے والا۔(جھود علماء الحنفیہ فی ابطال عقائد القبوریہ ج1 ص460،461)

10۔میں نے شیخ ابومحمد بدیع الدین الراشدی السندھی  رحمۃ اللہ علیہ  کو فرماتے ہوئے سنا:

"خرافی یکذب" یعنی کوثری خرافات بیان کرنے والا،جھوٹ بولتا تھا۔(انوار السبیل فی میزان الجرح والتعدیل ص75)

ان کے علاوہ اور بھی بہت سی دلیلیں ہیں مثلاً کوثری نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور ائمہ مسلمین کو اپنی تنقید وتنقیص کا نشانہ  بنایا ہے جس کی تفصیل"التنکیل"وغیرہ کتابوں میں ہے۔تعلیقات السیف الصقیل میں عز الدین بن عبدالسلام وغیرہ کے اقوال کئی وجہ سے مردود ہیں:

اول:کوثری بذات خود غیر ثقہ اور ضعیف تھا۔

دوم:اگر یہ اقوال ثابت بھی ہوتے تو جمہور اہل سنت کے مقابلے میں باطل ہیں۔

سوم:العز بن عبدالسلام کا قول اگر ثابت ہو:قرآن نہ حروف ہیں اور نہ اصوات۔(دیکھئے مقالات الکوثری:بدعۃ الصوتیہ حول القرآن ص29)

توضیح احادیث اور امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ   وغیرہ کے اقوال کے خلاف ہونے کی وجہ سے غلط اور مردود ہے۔

فائدہ:۔

مملوک خلفاء کے مقابلے میں عبدالعزیز بن عبدالسلام الدمشقی الشافعی المعروف العز بن عبدالسلام کاانتہائی بہترین موقف تھا،تاہم شیخ قطب الدین نے ذیل مرآۃ الزمان میں لکھا ہے:

"كان مع شدته فيه حسن محاضرة بالنوادر والأشعار. ... الكتبي : ((يحضر السماع ويرقص ويتواجد)"

آپ پر اللہ رحم کرے آپ اپنی شدت کے باوجود نادر حقایات اور اشعار پر بہترین استخصار رکھتے تھے،آپ سماع(قوالی) کی محفلوں میں حاضر ہوتے،رقص کرتے(ناچتے) اور وجد میں آ تے تھے۔

(دیکھئے تاریخ الاسلام للذہبی ج48 ص419 وفیات 660ھ)

رقص وسماع کی ممانعت پر حافظ شیخ ابو محمدمحمود بن ابی القاسم بن بدر ان الدشتی الحنفی  رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی 566ھ) نے ایک عظیم الشان کتاب:

"النهي عن الرقص والسماع"

لکھی ہے جو 915  صفحات میں دارالسنۃ(الریاض،سعودی عرب) سے دو جلدوں میں چھپ چکی ہے۔اس کتاب میں شیخ ابن بدران نے فرمایا:یہ گروہ جو سمجھتا ہے کہ رقص،گانے سننا اور بانسریاں بجانا اچھا کام ہے،یہ لوگ اللہ کی لعنت کے مستحق ہیں۔الخ(النہی عن الرقص والسماع ج1 ص 441)

تنبیہ:۔

کوثری جس علم کلام کی باتیں کرتا تھا،ایسے کلام کے بارے میں امام ابو عبداللہ محمد بن ادریس الشافعی  رحمۃ اللہ علیہ  نےفرمایا:

"لأن يبتلى العبد بكل ما نهى الله عنه ما عدا الشرك خير له من أن ينظر في علم الكلام "لقد اطلعت من أصحاب الكلام على شيء ما ظننت أن مسلماً يقول ذلك"

"اگر آدمی شرک کے علاوہ ہر ممنوع کام میں مبتلا ہوجائے،وہ اس کے لیے علم کلام سے بہتر ہے اور میں نے ان اصحاب  کلام کی ایسی چیزیں دیکھی ہیں،میں نہیں سمجھتا کہ کوئی مسلمان ایسی بات کہہ سکتا ہے۔(آداب الشافعی ومناقبہ لابن ابی حاتم ص137،وسندہ صحیح)

انور شاہ کشمیری دیوبندی کاکہنا ہے کہ"جس نے خدا کو متکلم بالصوت والحروف کہا اُس نے خدا کے لیے جسمیت کی جو کفر ہے۔"کئی وجہ سے مردود اور باطل ہے:

اول:حروف اور صوت کا ذکر احادیث صحیحہ اور آثار صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  و غیرہ  سے ثابت ہے۔(کماتقدم) کیا یہ جسمیت کے قائل تھے؟!

دوم:امام احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ حروف واصوات کے قائل تھے ۔کیا یہ مجسمہ میں سے تھے؟

سوم:سیدنا موسیٰ  علیہ السلام  نے کوہ طور کے پاس اللہ تعالیٰ کا کلام سنا تھا یا نہیں؟اگر سنا تھا تو تم اپنے باطل دعویٰ اور اصول کی رُو سے جسمیت کے قائل ہو۔اگر نہیں سنا تھا تو قرآن کے منکر ہو،ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَلَمّا جاءَ موسىٰ لِميقـٰتِنا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ ...﴿١٤٣﴾... سورةالاعراف

"اور جب پہنچا موسیٰ ہمارے وقت پر،اور کلام کیا اس سے اس کے رب نے۔"(الاعراف:143 ،ترجمہ عبدالقادر دہلوی ص202)

اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ اللہ کے کلام کو حرف اور صوت ماننا جسمیت ثابت کرنا نہیں ہے بلکہ اس ایمان کا اعلان اور اظہار ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔مخلوق نہیں ہے اور یہی قرآن من وعن اپنے تمام حروف کےساتھ اللہ تعالیٰ نے روح الامین سیدنا جبریل  علیہ السلام  کے ذریعے سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر نازل فرمایا،یہ اللہ کی صفتِ کلام اور صفتِ علم ہےاور صفات باری تعالیٰ مخلوق نہیں ہیں بلکہ صفت الرب کو مخلوق سمجھنے والا کافر ہے۔

صفت کلام کے بارے میں سلف صالحین کے عقیدے اور منہج کے بعض حوالے اس مضمون میں سابقہ صفحات پر گزر چکے ہیں۔

احمد رضا بجنوری دیوبندی(مجروح)  نے انور شاہ کشمیری دیوبندی سے نقل کیا:

"حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا:"عرش قدیم ہے"(ملفوظات کشمیری ص203)

شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  کی  طرف منسوب یہ قول کئی وجہ سے باطل اور مردود ہے:

اول:یہ قول حافظ ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  کی کسی کتاب میں لکھا ہوا نہیں ہے۔

دوم:شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

" فإن العرش - أيضاً – مخلوق"

۔۔۔بے شک عرش بھی مخلوق ہے۔(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ج18 ص214)

سوم:انور شاہ کشمیری دیوبندی نے اس کی کوئی صحیح دلیل یا حوالہ پیش نہیں کیا۔

چہارم:احمد رضا بجنوری بذات خود مجروح تھا،اس کی چار دلیلیں پیش خدمت ہیں:

1۔بجنوری سے نقل کرتے ہوئے کہا:ابن تیمیہ نے"کنزولی ھذا"سے تشریح کرکے بدعت قائم کردی ہے۔"(ملفوظات ص243)

حالانکہ حافظ ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے"کنزولی ھذا"کے الفاظ قطعاً نہیں کہے بلکہ انھوں نے فرمایا:

"وكذلك نعلم معنى النزول ولا نعلم كيفيته "

اور اسی طرح ہم نزول کا معنی جانتے ہیں اور اس کی کیفیت کو نہیں جانتے۔(شرح حدیث النزول ص32)

عبارتِ مذکورہ بالا کا جس نے بھی حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  کی طرف انتساب کیا ہے،اُس نے جھوٹ بولا ہے۔

2۔بجنوری نے کہا:"فتح الباری 7/139 میں بھی حدیث نزول وصلوٰۃ بیت اللحم نسائی ،بزار وطبرانی کے حوالے سے ذکر ہوئی ہے،مگرکچھ ابہام کے ساتھ ،اور غالباً اسی سے  علامہ ابن القیم نے غلط فائدہ اٹھایا ہے،واللہ اعلم۔"(ملفوظات ص 183)

عرض ہے کہ حافظ ابن القیم  رحمۃ اللہ علیہ  751ھ میں فوت ہوئے اور حافظ ابن حجر العسقلانی 773 میں پیدا ہوئے تھے تو اپنی وفات کے بعد پیدا ہونے والے کی کتاب فتح الباری سے کس طرح ابن القیم نے غلط فائدہ اُٹھایا تھا؟

بجنوری نے تو جھوٹ کا"لک" توڑدیا ہے۔

تنبیہ:۔

حوالہ مذکورہ کے سیاق وسباق سے صاف ظاہر ہے کہ اس میں حدیث سے فائدہ اُٹھانا مراد نہیں بلکہ فتح الباری سے"غلط فائدہ" اُٹھانا مراد ہے۔

3۔بجنوری نے امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  کے بارے میں کہا:" زیادہ تحقیقی بات یہ ہے کہ امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  کو پہلی بار بخاراسے مسئلہ حرمت رضاع بلبن شاۃ کی وجہ سے نکلنا پڑا۔۔۔"(ملفوظات کشمیری ص 156)

بجنوری کی یہ بات بالکل جھوٹ ہے اور یہ و ہ جھوٹا قصہ ہے جسے بعض بے سند حنفیوں نے گھڑ کر اپنے مقلدین میں مشہور کردیا تھا۔عبدالحئی لکھنوی تقلیدی نے بھی اس قصے کا بعید از صحت ہونا تسلیم کیا۔دیکھئے الفوائد البہیہ(ص29،ترجمہ احمد بن حفص البخاری)

ہم پوچھتے ہیں کہ اس بے سند جھوٹے قصے کی"صحیح متصل"سند کہاں ہے؟

اس جھوٹے قصے کا خلاصہ یہ ہے کہ بجنوری وغیرہ کے نزدیک امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  اس بات کے قائل تھے کہ اگربچہ اور بچی کسی ایک گائے کا دودھ پی لیں تو رضاعت ثابت ہوجاتی ہے۔!!!حالانکہ ایسی باطل بات کا قائل کوئی صاحب علم نہیں،کجا یہ کہ امیر المومنین فی الحدیث اور امام الدنیا فی فقہ الحدیث امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  ایسی بات کے قائل ہوں۔!!

جو لوگ امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  پر جھوٹ بولنے سے شرم وحیا نہیں کرتے،وہ ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ پر کتنا جھوٹ بولتے ہوں گے۔؟!

4۔بجنوری نے لکھا ہے:"تقلیدی شخصی ضروری ہے"(ملفوظات ص 223)

عرض ہے کہ کتاب اللہ ،سنت اور اجماع سے تقلید شخصی کا ضروری ہونا ہرگز ثابت نہیں بلکہ سیدنا معاذ بن جبل  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:

"اگر وہ(عالم) سیدھےراستے پر بھی(جارہا) ہوتو ا پنے دین میں اس کی تقلید نہ کرو"الخ(کتاب الزہد للامام وکیع ج1 ص 299،300 ح71 وسندہ حسن دین میں تقلید کامسئلہ ص36)

اشرف علی تھانوی دیوبندی نے کہا:"مگرتقلیدشخصی پر تو  کبھی اجماع بھی نہیں ہوا۔۔۔"(تذکرۃ الرشید ج1 ص 131)

محمد تقی عثمانی دیوبندی نے تقلید شخصی کے بارے میں کہا:

"یہ کوئی شرعی حکم نہیں تھا،بلکہ ایک انتظامی فتویٰ تھا"(تقلید کی شرعی حیثیت ص65)

معلوم ہوا کہ احمد رضا بجنوری ایک مجروح شخص تھا اور بس(!) لہذا ایسے شخص کی نقل اور روایت مردود ہوتی ہے۔

استواء کامعنی جلوس کرنا حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  سے ثابت نہیں ہے۔

حافظ ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  یہ عقیدہ ہرگز نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر بیٹھا ہوا ہے۔آپ کی کسی کتاب میں "جالس على عرشه"یا" جلوسه علي العرش" وغیرہ قسم کی کوئی عبارت موجود نہیں ہے بلکہ آپ کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ حقیقتاً اپنے عرش پر مستوی ہے بغیر کیفیت اور تشبیہ کے۔دیکھئے مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ (3/217)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے الامام العارف معمر بن احمد الاصبہانی  رحمۃ اللہ علیہ  سے نقل کیا کہ:

"وإن الله استوى على عرشه بلا كيف ولا تشبيه ولا تأويل والاستواء معقول والكيف فيه مجهول . وأنه عز وجل مستو على عرشه بائن من خلقه والخلق منه بائنون ; بلا حلول "

"اور بے شک اللہ اپنے عرش پر مستوی ہوا،بغیر کیفیت ،تشبیہ اور تاویل کے ،استواء معقول ہے اور کیفیت مجہول ہے اور بے شک وہ اپنے عرش پر مستوی ہے۔عزوجل ،اپنی مخلوقات سے جدا ہے اور مخلوق اس سے جدا ہے،بغیر حلول کے۔۔۔(الاستقامہ لابن تیمیہ ج1ص 168)

معلوم ہوا کہ جلوس کے لفظ کی نسبت حافظ ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  پر افتراء ہے۔رہا مسئلہ عرش پر اللہ تعالیٰ کا مستوی ہونا تو یہ قرآن ،حدیث اور اجماع سلف صالحین سے ثابت ہے۔

مشہور مفسر ِقرآن امام مجاہد(تابعی)  رحمۃ اللہ علیہ  نے استوی کی تفسیر میں فرمایا:

"علا على العرش"عرش پر بلند ہوا۔

(صحیح بخاری مع فتح الباری 13/403 قبل ح 7418 ،تفسیر الفریابی بحوالہ تغلیق التعلیق 5/345)

تنبیہ:۔

روایت مذکورہ میں عبداللہ بن ابی نجیح مدلس تھے لیکن صحیحین میں مدلسین کی روایات سماع پر محمول ہیں لہذا یہاں تدلیس کااعتراض صحیح نہیں ہے۔

نیز دیکھئے  تفسیر ابن کثیر(نسخہ محققہ دار عالم الکتب ج6 ص319)

فائدہ:۔

آج کل بہت سے دیو بندیوں نے کلبی(کذاب) کی روایت کردہ تفسیر ابن عباس کو سینے سے لگارکھا ہے،حالانکہ اس من گھڑت تفسیر میں استوی کا مفہوم:"استقر" لکھا ہوا ہے۔دیکھئے تنویر المقباس(ص 103)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے استوی کی تشریح میں استقر اور ظہر وغیرہ اقوال ذکر کرکے فرمایا:حسن(بصری کا قول:علا،ارتفع) اور (امام) مالک(المدنی کا قول:استواء معلوم اور کیفیت مجہول) سب سے بہترین جواب ہے۔دیکھئے مجموع فتاویٰ(ج5 ص 519،520)

استویٰ کا معنی ومفہوم"استولیٰ"کسی ایک صحابی ،تابعی،تبع تابعی یا مستند امام سے ثابت نہیں ہے،رہے ماتریدیہ اور کلابیہ وغیرہ تو سلف صالحین کے خلاف اُن کے افعال و اقوال کاکوئی اعتبار نہیں بلکہ سرے سے مردود ہیں۔

اللہ تبارک وتعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا قرآن ،حدیث،اجماع اور آثار سے ثابت ہے ۔اس عظیم الشان عقیدے کے تفصیلی دلائل کے لیے حافظ ذہبی کی عظیم الشان اور شہرہ آفاق کتاب" العلو للعلي الغفار"کا مطالعہ کریں جو کہ دو بڑی جلدوں میں عبداللہ بن صالح البراک کی تحقیق کے ساتھ چھپ چکی ہے ،جو1641 صفحات پر مشتمل ہے۔والحمدللہ

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کے کلام اللہ ہونے اور اللہ تعالیٰ کے اپنے عرش پر مستوی ہونے کے صحیح عقیدوں کی وجہ سے حافظ ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ پر کشمیری اور بجنوری وغیرھما کا تنقید کرنا غلط اور باطل ہے۔

کشمیری کا شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  کو دارالتقلید(مدرسہ دیوبند) میں داخل نہ ہونے دینا،ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  کے لیے نقصان کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ وہ تو دنیا سے تشریف ل جاچکے ہیں اور ملاعلی قاری حنفی کی تصریح کے ساتھ اولیائے اُمت میں سے تھے۔دیکھئے جمع الوسائل فی شرح الشمائل(1/207) اور ماہنامہ الحدیث حضرو(عدد 58 ص13)

اولیاء اللہ کا موت کے بعد مقام جنت ہے ،نہ کہ مدرسہ دیوبند جو کہ بستی کی غلاظتوں کے ڈھیر اورکوڑے کرکٹ کی جگہ پر تعمیر کیا گیا۔دیکھئے فخر العلماء(تصنیف اشتیاق اظہر ص64) مبشرات دارالعلوم(ص27 تصنیف انوار الحسن ہاشمی) اور علماء ہند کاشاندار ماضی(ج 5 ص 64) اور جو بتوں کی عبادت کرنے والے ہندوؤں میں گھرا ہوا ہے۔مدرسہ دیوبند میں اندھی تقلید،ابن عربی اور حسین بن منصور الحلاج کے تصوف،باطل تاویلات وتحریفات اور بدعات و ضلالات کے سوا کیا ہے کہ اولیاء الرحمٰن اُس کا دورہ کریں اور تقلیدی حضرات اُن پر پابندیاں لگاتے  پھریں۔سبحان اللہ! وما علینا الاالبلاغ (29/مارچ 2009ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب العقائد۔صفحہ33

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ