سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(67) عبدالنبی وغیرہ نام رکھنا

  • 20883
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 2399

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن میں آتا ہے:

﴿وَأَنكِحُوا الأَيـٰمىٰ مِنكُم وَالصّـٰلِحينَ مِن عِبادِكُم وَإِمائِكُم ...﴿٣٢﴾... سورة النور

دوسری جگہ فرمایا:

﴿قُل يـٰعِبادِىَ الَّذينَ أَسرَفوا عَلىٰ أَنفُسِهِم لا تَقنَطوا مِن رَحمَةِ اللَّهِ ...﴿٥٣﴾... سورة الزمر

ان دونوں آیات میں عباد کا لفظ غلام اور خادم کے معنی میں استعمال ہوا ہے نہ کہ عبادت گزار کے معنوں میں لہٰذا ان آیات کی روشنی میں عبدالصطفیٰ عبدالرسول یا عبدالنبی کے نام رکھنے میں کیا مضائقہ ہے؟ وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

لفظ عبد ایک مشترک لفظ ہے جس کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے بھی آتے ہیں اور خادم و غلام کے معنی میں بھی مستعمل ہے جب عند کی اضافت و نسبت غیر اللہ کی طرف ہوتی ہے تو اس کا مطلب خادم اور غلام ہی ہوتا ہے۔جیسا کہ مذکورہ بالا آیت میں ہے "وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ" عباد کی نسبت "کم" ضمیر کی طرف ہے لیکن نام اور تسمیہ کے محل پر عموماً یہ لفظ عباد کے طور پر استعمال ہوتا ہے اس لیے ایسے مواقع پر اس کا استعمال درست نہیں کیونکہ اس میں شرک کا شائبہ پایا جاتا ہے کئی ایک ایسی احادیث صحیحہ ہیں جن میں اسماء کے تعین کے وقت عبد کی اضافت اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب ہے جیسا کہ ارشاد نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  ہےسیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"أَحَبُّ الْأَسْمَاءِ إِلَى الله عبدالله وَعبدالرحمن"

(مسلم 6/169ابو داؤد مع عون 4/443ترمذی مع تحفۃ 4/29ابن ماجہ 2/40)

"اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ نام عبد اللہ اور عبدالرحمٰن ہیں۔"

ان دونوں ناموں میں لفظ عبد کی اضافت بالترتیب لفظ اللہ اور الرحمٰن کی طرف ہے اور یہ دونوں باری تعالیٰ کے نا م ہیں۔وہ اسماء جن میں عبد کی اضافت غیر اللہ کی جانب تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کو بدل ڈالا تھا جیسا کہ امام ابن عبدالبر الاستیعاب میں لکھتے ہیں کہ:

"عبدالله بن ابي قحافه ابوبكر الصديق  رضي الله عنه كان هو أبو بكر الصديق واسمه عبد الله بن أبي قحافة عثمان بن عامر القرشي، وقيل كان اسمه في الجاهليةعبد الكعبةفسماه رسول الله صلى الله عليه وسلمعبد الله

(الاستیعاب بر ھامش الاصابہ 2/234)

"سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا نام دور جاہلیت میں عبدالکعبہ تھا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کا نام عبد اللہ رکھا۔"

اسی طرح سید نا عبدالرحمٰن بن عوف کا نام زمانہ جاہلیت میں عبد عمرو تھا۔ بعض نے کہا عبد الکعبہ تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کا نام عبدالرحمٰن رکھ دیا۔(الاستیعاب 2/387)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے بارے میں منقول ہے کہ ان کا نام دور جاہلیت میں عبدشمس تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بدل کر عبد الرحمٰن رکھ دیا۔

(الاصابہ 4/200الااستیعاب 4/200۔207)

ابن ابی شیبہ میں حدیث ہے کہ:

"وَفَدَ على النبي صلى الله عليه وسلم قوم، فسمعهم يسمّون عبد الحجر فقال له: ما اسمك؟ فقال: عبدالحجر، فقال له رسول الله: إنما أنت عبد الله"(بحوالہ تحسین الاسماء ص: 71)

"ایک قبیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس قبیلہ کے لوگوں کو عبدالحجر کے نام سے پکارتے ہوئے ایک آدمی کو سنا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے پوچھا تیرا کیا نام ہے؟ اس نے کہا عبدالحجر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:تیرا نام عبداللہ ہے۔"

ایک حدیث میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"تَعِسَ عَبْدُ الدِّينَارِ وَعَبْدُ الدِّرْهَمِ وَعَبْدُ الْخَمِيصَةِ"

(بخاری مع فتح الباری 6/181ابن ماجہ (4136)

"درہم اور دینار اور چادر کا بندہ تباہ ہو گیا۔"

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ عبد کی اضافت اسماء میں جب غیر اللہ کی طرف ہوتی ہے تو یہ لفظ عبادت کے معنوں میں مستعمل ہوتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسے ناموں کو بدلا کیونکہ یہ شرکیہ نام ہیں۔ اگر انہیں شرکیہ نہ سمجھا جائے تو پھر ان میں شرک کی بو ضرور موجود ہے۔ شاہ ولی اللہ رقمطراز ہیں: "مشرکین کی شرک کی اقسام میں سے ایک یہ تھی کہ لوگ اپنی اولاد کے نام عبدالعزی اور عبدشمس وغیرہ رکھتے تھے۔ اور بے شمار احادیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے صحابہ کے ناموں کو عبدالعزی اور عبدشمس سے بدل کر عبداللہ اور عبدالرحمٰن رغیرہ رکھے۔یہ شرک کے دروازے اور سانچے ہیں۔ شرع نے ان ناموں سے اس لیے منع کیا ہے کہ یہ اس کے سانچے ہیں ۔ واللہ اعلم۔"(حجۃ اللہ البالغۃ 1/63باب اقسام شرک )

اسی طرح حنفی علماء کرام  میں سے ملا علی قاری مشکوۃ کی شرح مرقاۃ میں رقم طراز ہیں۔

 "عبدالحارث ،عبدالنبی وغیرہ نام رکھنا جائز نہیں اور لوگوں میں جو یہ نام رائج ہیں تو اس کا کوئی اعتبار نہیں۔"(مرقاۃ شرح مشکوۃ 8/513 تحت جدید رقم (4752)

ملا قاری  حنفی کی اس تصریح میں یہ بات عیاں ہو گئی کہ عبدالحارث اور عبدالنبی وغیرہ نام رکھنے جائز نہیں۔ رہا قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ سے یہ استدلال کرنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ حکم دیا گیا ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کہیں کہ اے میرے بندو ! یہ سر اسر باطل ہے اور قرآن حکیم کے خلاف ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿ما كانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤتِيَهُ اللَّهُ الكِتـٰبَ وَالحُكمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقولَ لِلنّاسِ كونوا عِبادًا لى مِن دونِ اللَّهِ وَلـٰكِن كونوا رَبّـٰنِيّـۧنَ بِما كُنتُم تُعَلِّمونَ الكِتـٰبَ وَبِما كُنتُم تَدرُسونَ ﴿٧٩﴾... سورة آل عمران

"کسی ایسے انسان کو جسے اللہ تعالیٰ کتاب وحکمت اور نبوت دے، یہ لائق نہیں کہ پھر بھی وه لوگوں سے کہے کہ تم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ، بلکہ وه تو کہے گا کہ تم سب رب کے ہو جاؤ، تمہارے کتاب سکھانے کے باعث اور تمہارے کتاب پڑھنے کے سبب۔

اس آیت کریمہ میں صاف فرمایا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے لائق نہیں وہ لوگوں سے کہے کہ تم میرے عبد بن جاؤ۔اس بات کی مزید تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اس بات سے ہوتی ہے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ عَبْدِي وَأَمَتِي كُلُّكُمْ عَبِيدُ اللَّهِ وَكُلُّ نِسَائِكُمْ إِمَاءُ اللَّهِ وَلَكِنْ لِيَقُلْ غُلَامِي وَجَارِيَتِي وَفَتَايَ وَفَتَاتِي وَلَا يَقُلْ الْعَبْدُ رَبِّي وَلَكِنْ لِيَقُلْ سَيِّدِي "

(رواہ مسلم مشکوۃ مع مرقاۃ 8/519)باب الاسامہ کتاب الادب)

"ہر گز تم میں کوئی شخص نہ کہے عبدی (میرا بندہ )اور میری لونڈی سب مرد تمھارے اللہ کے بندے اور سب عورتیں تمھاری اللہ کی لونڈیاں ہیں بلکہ یوں کہے کہ میرا غلام اور میری لڑکی۔ میرا خادم اور میری خادمہ اور غلام مالک کو ربی نہ کہے بلکہ مالک کو سیدی کہے۔"

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی فرد کو اس بات کی اجازت نہیں کہ کسی دوسرے شخص کو عبدی کہے۔ اور جس کام سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نےمنع فرمایا ہو۔کیا آپ اس کا ارتکاب کر سکتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ عبدکا لفظ غلام و خادم کے معنوں میں مستعمل ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔ لَا يَقُلْ الْعَبْدُ رَبِّي لیکن پھر بھی کسی کو اجازت نہیں دی کہ وہ عبدی کہے کہ کسی فرد کی نسبت عبودیت میں اپنی طرف کرے۔یہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف اضافت درست ہے۔غیر اللہ کی طرف اس کی اضافت کر کے اسماء رکھنا جائز نہیں اور کم از کم شرک کی بو سے خالی نہیں۔

قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ میں لفظ قُلْ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کہیں، کا مطلب یہ ہے کہ آگے جو يَا عِبَادِيَ ہے اس کی نسبت فرمان خدا وندی کی طرف ہے نہ کہ یہ مطلب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بندوں کی اضافت اپنی طرف کر رہے ہیں۔اس کی ممانعت سورۃ آل عمران کی آیت 79جو اوپر مذکور ہوئی ہے اس میں بھی ہے۔اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی مذکورہ حدیث میں بھی اور مزاج قرآن کے بھی خلاف ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جو ساری زندگی غیر اللہ کی عبودیت سے منع کرتے رہے اور عبد العزی و عبدالشمس جیسے اسماء کو بدلتے رہے تو کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ عباد کی اضافت اپنی طرف کر کے عبد النبی یا عبد المصطفیٰ  کہتے ۔

اور سورہ نور کی آیت نمبر32 میں عِبَادِكُمْ سے مراد خادم ہی ہے جیسا کہ لفظ اماءکے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور اس کی توضیح مذکورہ حدیث میں ہی ہو جاتی ہے جس میں خادم کو عبدکہاگیا ہے لیکن اس کی اضافت اپنی طرف کر کے بلانے کی کسی کو اجازت نہیں دی گئی بلکہ لا يقولن أحدكم عبدي کہہ کر ممانعت کر دی ہے۔ لہٰذا عبد المصطفیٰ ،عبدالنبی ، عبدالرسول وغیرہ نام رکھنا ناروا اور ناجائز ہیں۔ کسی طرح بھی درست نہیں(مجلۃ الدعوۃ جنوری 1997ء)

         
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب الادب۔صفحہ نمبر 528

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ