سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(63) مرتد کی سزا

  • 20879
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 884

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مرتد کسے کہتے ہیں اور اس کی شرعی سزا کیا ہے ؟کتاب و سنت کی روسے ہماری صحیح راہنمائی فرمائیں۔(ایک سائل ٹاؤن شپ لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مرتد اسم فاعل ہےارتد ‘يرتد‘ارتداداًسے جس کا لغوی معنی ہے پھرنے والاپلٹنےوالا۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿إِنَّ الَّذينَ ارتَدّوا عَلىٰ أَدبـٰرِهِم ...﴿٢٥﴾... سورةمحمد

"بے شک جو لوگ اپنی پیٹھ کے بل الٹے پھر گئے۔"

اسی طرح ایک مقام پر فرمایا:

﴿قالَ ذ‌ٰلِكَ ما كُنّا نَبغِ فَارتَدّا عَلىٰ ءاثارِهِما قَصَصًا ﴿٦٤﴾... سورةالكهف

"(موسیٰ  علیہ السلام   نے فرمایا)یہی تھا جس کی تلاش میں ہم تھے چنانچہ وہیں سے اپنے قدموں کے نشان ڈھونڈتےہوئے واپس پلٹے۔"

ایک اور مقام پر فرمایا:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا مَن يَرتَدَّ مِنكُم عَن دينِهِ فَسَوفَ يَأتِى اللَّهُ بِقَومٍ يُحِبُّهُم وَيُحِبّونَهُ...﴿٥٤﴾... سورةالمائدة

"اے ایمان والو! جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ایسی قوم کو لائے گا جو اللہ کی محبوب ہو گی اور وہ بھی اللہ سے محبت رکھتی ہو گی۔"

ان ہرسہ آیات میں ارتد‘فارتدا اور يرتدایک ہی باب کے مختلف صیغے ہیں جس کا بنیادی ماوہ ردہے اور اس کا معنی پھرنا واپس کرنا وغیرہ اور اصطلاحی طور پر اس کی تعریف یہ ہے۔

"ایسا مسلمان جو اپنے اسلام کو اختیار کرنے والا ہو اس کا کسی قول فعل، کفریہ عقیدہ یا ضرورت دینیہ سے کسی کے ساتھ شک کی بنیاد پر دین اسلام سے کٹ جانا مرتد ہونا ہے۔"(عقوبۃالاعدام ص:349)

بعض آئمہ نے اس کی تعریف یہ کی ہے۔

"هو الراجع عن دين الإسلام إلى الكفر "(القاموس الفقہی ص147)

"دین اسلام سے کفر کی طرف پلٹنے والا۔"

گویا مرتد ایسا شخص ہے جو اسلام لانے کے بعد واپس کفر کی طرف پلٹ گیا۔ یہ ارتداداس کے اندر خواہ عقیدہ کی بنا پر پیدا ہوا یا کسی قول ، فعل اور شک و شبہ کی بنا پر۔ خواہ سنجیدگی سے ہو یا مذاق و ٹھٹھہ سے۔ کیونکہ ارتداد جیسے سنجیدگی سے واقع ہوتا ہے۔ استہزاء و ہزل ، ٹھٹھا و مذاق سے بھی واقع ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿قُل أَبِاللَّهِ وَءايـٰتِهِ وَرَسولِهِ كُنتُم تَستَهزِءونَ ﴿٦٥ لا تَعتَذِروا قَد كَفَرتُم بَعدَ إيمـٰنِكُم ...﴿٦٦﴾... سورةالتوبة

"کہہ دیجئے اللہ تعالیٰ اس کی آیات اور اس کا رسول ہی تمھارے ہنسی مذاق کے لیے رہ گئے ہیں؟تم بہانے نہ بناؤ یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد کفر کر چکے ہو۔"

مرتد آدمی پکا جہنمی ہوجا تا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلا يَزالونَ يُقـٰتِلونَكُم حَتّىٰ يَرُدّوكُم عَن دينِكُم إِنِ استَطـٰعوا وَمَن يَرتَدِد مِنكُم عَن دينِهِ فَيَمُت وَهُوَ كافِرٌ فَأُولـٰئِكَ حَبِطَت أَعمـٰلُهُم فِى الدُّنيا وَالءاخِرَةِ وَأُولـٰئِكَ أَصحـٰبُ النّارِ هُم فيها خـٰلِدونَ ﴿٢١٧﴾... سورةالبقرة

"یہ لوگ تم سے لڑائی بھڑائی کرتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان سے ہوسکے تو تمہیں تمہارے دین سے مرتد کردیں اور تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے پلٹ جائیں اور اسی کفر کی حالت میں مریں، ان کے اعمال دنیوی اور اخروی سب غارت ہوجائیں گے۔ یہ لوگ جہنمی ہوں گے اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں ہی رہیں گے"

پہلی دلیل:

عکرمہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے:

"أنَّ عليًّا حرَّق قوماً ، فبلغ ابنَ عباس فقال : لو كنتُ أنا لم أحرِّقهم ؛ لأنَّ النَّبيَّ صلى الله عليه وسلم قال ( لا تُعذِّبوا بعذاب الله ) ولَقَتَلتُهم كما قال النَّبيُّ صلى الله عليه وسلم : ( مَن بدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ)"

(بخاری کتاب الجہاد والسیر(3017)وکتاب استابہ المرتدین والمعاندین وقتالہم:باب حکم المرتد والمرتدہ واستابتھم(6922)مسند حمیدی(533)بیہقی 8/195۔ابن ماجہ کتاب الحدودباب المرتد عن دینہ (2535)مسند احمد 1/282،217،دارقطنی 3/113،ابو داؤدکتاب الحدود باب الحکم فیمن ارتد(4351)نسائی کتاب تحریم الدم7/104،ترمذی کتاب الحدود باب ماجاء فی حکم المرتد1458،شرح السنہ (2560)مسند ابی یعلیٰ 4/409،(4532،4533)

"علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ایک قوم کو آگ میں جلایا۔ یہ بات عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو پہنچی تو انھوں نے فرمایا اگر میں ہوتا تو انہیں آگ میں نہ جلاتا۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:" اللہ کے عذاب کے ساتھ عذاب نہ دو۔"البتہ انہیں قتل کر دینا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:" جس نے اپنا دین بدل لیا ۔ اسے قتل کر دو۔"

دوسری دلیل:

عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

"عنْ ابنِ مسعودٍ -رَضِي اللهُ عَنْهُ- قالَ: قالَ رسولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((لاَ يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ أَن لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وأَنِّي رسُولُ اللهِ إِلاَّ بِإِحْدَى ثَلاَثٍ: الثَّيِّبِ الزَّانِي، وَالنَّفْسِ بِالنَّفْسِ، وَالتَّارِكِ لِدِينِهِ الْمُفَارِقِ لِلْجَمَاعَةِ)). رواه البخاريُّ ومسلمٌ))"

(بخاری کتاب الدیات،مسلم کتاب القسامہ باب مابیاح بہ دم المسلم1676ابو داؤدکتاب الحدود4352ترمذی کتاب الدیات (1402)ابن حبان (4404)نسائی کتاب القسامہ باب القود 8/13،مسند حمیدی (119)دارقطنی (3/82)بیہقی کتاب الجنایات،(8/19)مسند ابی یعلیٰ 9/128،(5202)

"جو مسلمان لاالٰہ الا اللہ اور میرے رسول ہونے کی گواہی دے اس کا خون حلال نہیں مگر تین کاموں میں سے کسی ایک کی بنا پر۔

 1۔نفس نفس کے بدلے (یعنی قاتل کو مقتول کے بدلے قصاص میں قتل کرنا)

2۔شادی شدہ زانی (یعنی رجم کر کے مار دیا جائے )

3۔اپنے دین کو چھوڑنے والا جماعت کو ترک کرنے والا یعنی مسلمانوں کی جماعت علیحدہ ہو کر کافروں کی جماعت میں شامل ہو جائے اور دین اسلام ترک کر بیٹھے۔مرتد ہو جائے۔"

یہ حدیث عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے ابو داؤد کتاب الحدود باب الحکم فیمن ارتد (4353)مسند احمد 6/58،181،205،214،نسائی کتاب تحریم الدم(7/91)مسند طیالسی (1474)مسند ابی یعلیٰ 8/136،(4676)میں بسند صحیح موجود ہے۔

تیسری دلیل:

علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں۔

"عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه ، قَالَ : " كُلُّ مُرْتَدٍّ عَنِ الإِسْلامِ ، مَقْتُولٌ إِذَا لَمْ يَرْجِعْ ذَكَرًا ، أَوْ أُنْثَى " (دارقطنی 3/93(3195)طبع قدیم 3/119)

"اسلام سے مرتد ہونے والا ہر شخص قتل کیا جائے گا جب وہ واپس نہ پلٹے خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔"

اس اثر کی سند حسن ہے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا موقف بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔(الحلیٰ لا بن حزم 13/132)امام ابو امظفر یحییٰ بن محمد بن ہبیرہ  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"اس باب پر آئمہ دین کا اتفاق ہے کہ اسلام سے مرتد ہونے والا واجب القتل ہے۔"

(الافصاح عن معانی الصحاح2/187)

امام ابن قدامہ  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"قال ابن قدامة المقدسي رحمه الله تعالى : " وَأَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى وُجُوبِ قَتْلِ الْمُرْتَدِّ ، وَرُوِيَ ذَلِكَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ , وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ , وَعَلِيٍّ , وَمُعَاذٍ , وَأَبِي مُوسَى , وَابْنِ عَبَّاسٍ , وَخَالِدٍ , وَغَيْرِهِمْ , وَلَمْ يُنْكَرْ ذَلِكَ , فَكَانَ إجْمَاعًا ". انتهى " المغني" (9/16) . (المغنی8/123)"

"اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ مرتد واجب القتل ہوتا ہے اور یہ بات ابو بکر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وغیرھا سےمروی ہے اس پر انکار نہیں کیا گیا پس اس پر اجماع ہو گیا۔"

اور یہی اجماع علامہ صنعانی ، ابن دقیق العید اور کاسانی ضنفی نے نقل کیا ہے (ملاحظہ ہو سبل السلام 3/263،احکام الاحکام 3/84، بدائع الصنائع 7/134 بحوالہ  عقوبہ الاعدام ص: 367)

پس معلوم ہوا کہ قرآن و سنت اجماع صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین اور اجماع اہل علم فقہاء و محدثین  رحمۃ اللہ علیہ  کی روسے مرتد واجب القتل ہے(مزید تفصیل کے لیے شیخ محمد بن سعد کی کتاب عقوبہ الاعدام کا مطالعہ فرمائیں)مجلۃ الدعوۃ اکتوبر(1998ء)

         
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب الحدود۔صفحہ نمبر 507

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ