سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(9) درُود کی آواز نبی کریم ﷺ کو پہنچنے والی روایت کی تحقیق

  • 20825
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 1277

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض لوگ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب جلاء الافہام ص:96 سے حدیث پیش کرتے ہیں

پیش  کرتے ہیں کہ دنیا کے جس خطے میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پردرود  پڑھاجائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس کی آواز پہنچ جاتی ہے کیا یہ روایت صحیح ہے؟وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات گرامی پر درُود  پڑھنے کے متعلق اللہ وحدہ لا شریک کاقرآن حکیم میں حکم ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ إِنَّ اللَّهَ وَمَلـٰئِكَتَهُ يُصَلّونَ عَلَى النَّبِىِّ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا صَلّوا عَلَيهِ وَسَلِّموا تَسليمًا ﴿٥٦﴾... سورةالاحزاب

"بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پر صلاۃ بھیجتے ہیں۔اے ایمان والو!تم بھی اس نبی پر صلاۃ وسلام بھیجتے رہو۔"

معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات  گرامی پر صلاۃ وسلام پڑھنا چاہیے لیکن یہ بات کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں کہ دنیا میں جہاں بھی درُود پڑھا جارہا ہوآپ صلی اللہ علیہ وسلم  تک اسکی آواز  پہنچ جاتی ہے  یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اسے سنتے ہیں۔

امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  نے صلاۃ وسلام کے متعلق جوکتاب بنام"جلاء الافہام"لکھی اس میں ایک روایت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے اس سند کے ساتھ درج کی ہے:

"قال الطبرانی حدثنا يحييٰ بن ايوب العلاف حدثنا سعيد بن ابي مريم عن خالد بن يزيد عن سعيد بن ابی هلال عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَإِنَّهُ مَشْهُودٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ، وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا، قَالَ:قُلْتُ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ ؟! قَالَ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ، إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ. فَنَبِيُّ اللَّهِ حَيٌّ يُرْزَقُ."

"ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:جمعے والے دن مجھ پر کثرت سے درُود پڑھاکرو۔یہ ایسا دن ہے جس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں نہیں ہے کوئی آدمی جو مجھ پر درود پڑھتاہو مگر مجھ تک  اس کی آواز  پہنچ جاتی ہے وہ جہاں کہیں بھی ہو۔ہم نےکہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعد بھی تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا میری وفات کے بعد بھی۔بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین کے اوپر انبیاء علیہ السلام  کے جسموں کوکھانا حرام کردیا ہے۔"

یہ روایت درست نہیں ہے۔امام عراقی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"ان اسناده لا يصح"

(االقول البدیع فی الصلاۃ علی الحبیب الشفیع ص؛159)

"بلاشبہ اس کی سند صحیح نہیں۔"

اس سندکے صحیح نہ ہونے کی دو وجوہات ہیں:

1۔سعید بن ابی مریم اور خالد بن یزید کے درمیان انقطاع ہے یعنی سعید بن ابی مریم نے یہ حدیث خالد سے نہیں سنی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ خالد بن یزید 139ھ میں فوت ہوئے(تہذیب التہذیب 2/178)جبکہ سعید بن ابی مریم کی ولادت 144ھ میں ہوئی۔(تہذیب التہذیب 2/296)گویا کہ سعید خالد کی وفات کے پانچ سال بعد پیدا ہوا ۔لہذا یہ روایت صحیح کیسے ہوسکتی ہے۔

2۔دوسری علت یہ ہے کہ سعید بن ابی ہلال اور ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کے درمیان بھی انقطاع ہے۔سعید بن ابی ہلال مصر میں 70ھ  میں پیدا ہوئے۔(تہذیب التہذیب 2/342) جبکہ ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سیدنا  عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی خلافت کے آخرمیں فوت ہوچکے تھے۔(تقریب:52) لہذا 70ھ میں پیدا ہونے والے آدمی کی ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ملاقات کیسے ہوسکتی ہے۔وہ توان کی پیدائش سے پہلے ہی اس دُنیائے فانی سے جاچکے تھے۔

امام صلاح الدین العلائی   رحمۃ اللہ علیہ  نے لکھاہے کہ سعید بن ابھی حلال کی روایت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مرسل ہے۔(جامع التحصیل :224)  اور جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بن مدینہ میں 70ہجری کے بعد فوت ہوئے(تقریب :52) جب سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ان کی روایت مرسل ہے تو جابر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے پہلے فوت ہوجانے والے صحابی ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ان کی روایت کیسے صحیح ہوسکتی ہے لہذا یہ روایت ضعیف ہے۔علاوہ ازیں علامہ سخاوی  رحمۃ اللہ علیہ نے القول البدیع ص:158میں طبرانی  کبیر سے یہ روایت نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

"واخرجه الطبراني في الكبير بلفظ اكثروالاالصلاة يوم الجمعة فانه يوم مشهود تشهده الملائكة ليس من عبد يصلي علي الا بلغتني صلاته حيث كان"

(القول البدیع اردو ص:283مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور)

"یعنی جلاء الافہام میں اس روایت کے اندر" بلغتني صوته" اور القول البدیع میں"بلغتني صلاته" کے الفاظ ہیں۔"

پہلی دلیل کا مطلب مجھے اس کی آواز پہنچتی ہے اور دوسری کا مطلب یہ ہے مجھے اس کا درود پہنچتاہے۔

دوسری صورت میں سائل کا مسئلہ ہی حل ہوجاتا ہے کیونکہ دیگر احادیث سے ثابت ہے کہ آپ کو درود پہنچا دیا جاتا ہے۔

بہرکیف  یہ روایت اسنادی لحاظ سے قابل حجت نہیں۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔العقائد و التاریخ۔صفحہ نمبر 103

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ