سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(548) گری پڑی معمولی چیز اٹھانا

  • 20811
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 732

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض دفعہ بازار یا گلی میں کوئی معمولی سی چیز گری ہوتی ہے، مثلاً بٹن، سوئی وغیرہ۔ کیا اسے اٹھانا جائز ہے؟ یا اس کے لئے اعلان کرنے کی ضرورت ہے جبکہ ایسی اشیاء کو بالعموم نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کے متعلق راہنمائی فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 بازار یا گلی کو چہ میں گری پڑی چیز اعلان کی نیت سے اٹھائی جا سکتی ہے البتہ معمولی اشیاء جن کے گم ہونے سے مالک کو اس کی چنداں پروا نہیں ہوتی، انہیں اٹھایا جا سکتا ہے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے : ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں چھڑی ، رسی ، کوڑا اور اس قسم کی معمولی چیزیں اٹھا لینے کی اجازت دی تھی کہ انسان ان سے فائدہ اٹھا لے۔ ‘‘[1]

یہ روایات اگرچہ ضعیف ہے لیکن دوسری روایات سے اس کے معنی کی تائید ہوتی ہے ، چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’ جب کوئی شخص سمندر میں بہتی ہوئی لکڑی، چابک یااس جیسی (کوئی انتہائی کم قیمت) چیز پائے(صحیح بخاری اللقطہ) امام بخاری کے اس انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوداود کے حوالے سے بیان کردہ روایت اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس میں جو حکم بیان کیا گیا ہے وہ دیگر دلائل کی بنا پر صحیح ہے۔ حضرت یعلی بن سرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی معمولی چیز کا اعلان بھی تین دن تک کرنا چاہیے، ممکن ہے کہ مالک کو اس کی ضرورت ہو۔[2]

بہر حال اگر گری پڑی معمولی چیز کھانے سے متعلق ہے تو اسے اٹھا کر کھایا جا سکتا ہے، اس کے متعلق اعلان کی ضرورت نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ نے ایک گری ہوئی کھجور دیکھی تو اسے اٹھا کر کھا لیا اور فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ فساد کر پسند نہیں کرتا۔ ‘‘[3]

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا اسے نظر انداز کر دیتیں اور اسے دوسرا بھی کوئی نہ اٹھاتا تو وہاں پڑی پڑی خراب ہو جاتی، اس لئے انہوں نے اسےاٹھا کر کھا لیا، بہر حال ایسی معمولی اشیاء جن کی مالک کو ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی انکی پروا کی جاتی ہے انہیں اٹھا کر کام میں لایا جا سکتا ہے۔ ( واللہ اعلم)


[1] ابو داود ، اللقطه: ۱۷۱۷۔

[2] مسند امام احمد ص ۱۷۳ ج۴۔

[3] مصنف ابن ابی شیبه ص ۴۱۶ ج۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:474

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ