سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(534) یتیم کا مفہوم؟

  • 20797
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 3343

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کسی کا والد فوت ہو جائے تو وہ کس وقت تک یتیم رہتا ہے ، شریعت نے اس کی کیا حد مقرر کی ہے، کتاب و سنت سے اس کی وضاحت کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ احتلام کے بعد یتیم نہیں۔ [1]

امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’ یتیمی کب ختم ہوتی ہے؟ ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ بچے اس وقت تک یتیم رہتے ہیں، جب تک وہ بالغ نہ ہوں، اگر بالغ ہو جائیں تو شرعاً یہ حالت ختم ہو جاتی ہے ۔ اب یہ سوال کہ انسان بالغ کب ہوتاہے ؟ مختلف احادیث کے پیش نظر اس کی تین علامتیں ہیں:

 (۱) بچے کو احتلام آ جائےیا بچی حالتِ حیض سے دو چار ہو جائے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے۔

(۲)  جب بچے یا بچی کی عمر پندرہ سال ہو جائے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ غزوہ احد کے دن وہ چودہ سال کے تھے تو انہیں جنگ میں شرکت کی اجازت نہ ملی لیکن آئندہ سال جب وہ پندرہ برس کے ہوئے تو غزوہ خندق میں شرکت کی اجازت مل گئی۔[2]

(۳) زیر ناف بال اگ آئیں۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ غزوہ بنی قریظہ کے دن جس شخص کے زیر ناف بال اگے ہوئے تھے اسے قتل کر دیا جاتا اور جس کے بال نہ ہوتے اسے چھوڑ دیا جاتا۔[3]

بہرحال بلوغ کے بعد یتیمی کی حالت ختم ہو جاتی ہے اور بلوغ کی مذکورہ بالا تین علامتیں ہیں۔ ( واللہ اعلم)


[1] بیہقی ص ۳۲۰ ج ۷۔

[2] صحیح بخاری ، المغازی : ۴۰۹۷۔

[3] ابو داود ، حدود: ۴۴۰۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:462

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ