سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(512) کہانت اور جادو کی حقیقت

  • 20775
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1079

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جادو اور کہانت کیا چیز ہیں، اس سے کام لینا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے ، کتاب و سنت میں اس کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 لغوی طور پر ہر اس چیز کو جادو کہا جاتا ہے جس کا سبب اور تاثیر مخفی ہو اور لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو، اصطلاحی طور پر اس سے مراد وہ غیر شرعی تعویذات اور دم جھاڑ ہے جو عقل و جسم پر اثر انداز ہو اور محبت و نفرت کا باعث ہو۔ جادو کا سیکھنا اور اس پر عمل کرنا حرام ہے بلکہ اس کا مرتکب کافر اور دین اسلام سے خارج ہے کیونکہ اس میں شیاطین کا بہت عمل و دخل ہوتا ہے ، لہٰذا اسے کسی صورت میں اختیار نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی طرح کہانت کا لغوی معنی اندازہ لگانا ہے ، اصطلاحی طور پر ایسے امور کے ذریعے سے حقیقت تلاش کرنا جن کی کوئی بنیاد نہ ہو۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ اسے بطور پیشہ کرتے تھے، ان کا براہ راست شیاطین سے رابطہ ہوتا تھا ، وہ شیاطین کی باتوں میں اپنی طرف سے اضافہ کر کے دوسروں سے بات کرتے تھے ہمارے رجحان کے مطابق کا ہن وہ ہے جو لوگوں کو امور غیب سے مطلع کرنے کا دعویدار ہو ، ہمارے ہاں اس کی کئی صورتیں رائج ہیں مثلاً:

٭ کسی نابالغ بچے کو سامنے بٹھا کر اس کے ناخن پر سیاہی لگا دیتے ہیں پھر اس میں مختلف شکلیں دکھانے کا دعویٰ کر کے لوگوں کو فریب دیاجاتا ہے۔

٭ مریض کے کسی کپڑے کی پیمائش کی جاتی ہے، پھر اس کے کم و بیش ہونے کی صورت میں بیماری، آسیب یا سایہ وغیرہ سے مطلع کیا جاتا ہے۔

٭ پانی دم کر کے پلایا جاتا ہے پھر اس کے ذائقہ کی تبدیلی کے بہانے مختلف بیماریوں یا جن بھوت کے اثر انداز ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔

٭ کسی پرندے یا طوطے وغیرہ سے پرچی نکالی جاتی ہے پھر اس پر تحریر شدہ عبارت کی روشنی میں متاثرہ لوگوں کی قسمت بتائی جاتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔

ہمارے رجحان کے مطابق ان کے پاس جانے کی تین صورتیں ہیں:

٭ کاہن کے پاس جا کر اس سے مختلف سوالات کرنا مگر اس کی باتوں کی تصدیق نہ کرنا، ایسا کرنا بھی حرام اور ناجائز ہے، کیونکہ ایسا کرنا چالیس دن کی نمازوں سے محرومی کا باعث ہے جیسا کہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو شخص کسی کاہن کے پاس گیا اور اس سے کسی چیز کے متعلق سوال کیا تو اس کی چالیس رات کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں۔‘‘[1]  

٭ دوسری صورت میں یہ ہے کہ انسان کسی کاہن کے پاس جائے اورا س سے اپنی قسمت کے متعلق سوالات کرے پھر اسے سچا بھی خیال کرے، ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے کے مترادف ہےکیونکہ اس نے کاہن کے دعویٰ غیب دانی کی تصدیق کی ہے اور یہ کفر ہے۔ حدیث میں ہے: ’’ جو شخص کسی کاہن کے پاس جائے تو اس نے ان تعلیمات کا انکار کر دیا جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی ہیں۔ ‘‘[2]

٭تیسری قسم یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کاہن کے پاس جائے اور اس سے اس بنا پر سوال کرے کہ لوگوں سے اس کی بے بسی اور لا چارگی بیان کی جائے اور انہیں بتایا جائے کہ یہ شعبدہ بازی اور ملمع سازی ہے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتب ابن صیاد کےپاس گئے تھے اور اس سے سوالات بھی کئے تھے تو آپ نے فرمایا تھا کہ تو ذلیل و رسوا ہو جا، تو اپنی حیثیت سے آگے نہیں بڑھے گا۔ [3]

اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

بہر حال کاہن کے پاس جانا اس سے اپنی قسمت کے متعلق سوال کرنا پھر اسے سچا خیال کرنا بہت بڑا گناہ ہے ، انسان ایسا کرنے سے دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے ہمیں محفوظ رکھے۔


[1] صحیح مسلم، السلام : ۲۲۳۰۔

[2] ابن ماجہ ، الطہارة : ۶۳۹۔ 

[3] صحیح بخاری ، الجنائز: ۱۳۵۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:447

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ