سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(508) بگلے کی حلت

  • 20771
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1251

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سفید رنگ کا بگلا جو فصلوں میں عام دیکھا جاتا ہے جب انہیں پانی دیا گیا ہو ، قرآن و حدیث میں اس کے حلال یا حرام ہونے کے متعلق کیا وارد ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اصل کے اعتبار سے ہر چیز حلال ہے اور حرام صرف وہ ہے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کیا ہو اور جس سے انہوں نے خاموشی اختیار کی ہو وہ بھی معاف ہے چنانچہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے اور حرام وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے اور جس کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے وہ ان اشیاء سے ہے جن سے اس نے درگذر فرما دیا ہے۔ [1]

’’ نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ نبی ان کے لئے پاکیزہ اشیاء حلال قرار دیتا ہے اور خبیث اشیاء ان پر حرام کرتا ہے ۔

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ غیر خبیث اشیاء پاکیزہ اور حلال ہیں نیز حدیث بالا کے مطابق جس چیز کے متعلق خاموشی اختیار کی گئی ہے وہ بھی قابل معافی ہے، ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر رحمت کرتے ہوئے کچھ چیزوں سے خاموشی اختیار کی ہے لہٰذا تم ان کی کرید نہ کرو۔[2]

اشیاء کی خباثت کو مندرجہ ذیل امور سے معلوم کیا جا سکتا ہے:

٭ شریعت میں اس کی حرمت کے متعلق نص موجود ہو، مثلاً گھریلو گدھے۔ ٭ جن جانوروں کو مارنے کا حکم دیا گیا ہے مثلاً چوہا ، سانپ اور چیل وغیرہ۔ ٭ جن جانوروں کو مارنے سے منع کیا گیا ہو مثلاً بلی وغیرہ ۔ ٭ جو چیز انسان کے لئے جسمانی طور پر ضرر رساں ہو مثلاًزہر ۔  ٭ جو چیز عقل کو نقصان پہنچاتی ہو جیسے تمام نشہ آور اشیاء شراب وغیرہ ۔ ٭ جو جانور مردار کھاتا ہو جیسے گدھ وغیرہ۔ ٭ جسے ناجائز طریقہ سے ذبح کیا گیا ہو مثلاً غیر اللہ کے لئے ذبح کر دہ یا کافر کاذبح کر دہ۔ ہر کچلی والا جانور اور ہر چنگال والا پرندہ ۔

مذکورہ بالاامور کی روشنی میں جب بگلے کو دیکھا جاتا ہے تو وہ ان میں سے کسی کی زد میں نہیں آتا ، وہ ایک پرندہ ہے پنجے سے شکار کر کے اپنے پنجے میں پکڑ کر نہیں کھاتا ، وہ صرف فصلوں سے نکلنے والے حشرات کو کھاتا ہے، اس لئے اسے حلال قرار دیا جانا زیادہ قرین قیاس ہے۔ اس کی حرمت کے متعلق کوئی واضح دلیل موجود نہیں ، اس لئے اصل کے اعتبار سے بھی حلال معلوم ہوتا ہے ۔ نیز یہ ایسی اشیاء سے ہے جن کے متعلق خاموشی اختیار کی گئی ہے لہٰذا یہ حلال ہے۔ ( واللہ اعلم)


[1] الاعراف: ۱۵۷۔

[2] دارقطنی ص ۱۸۳ ج ۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:444

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ