سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(2) آستانوں اور مزاروں پر اللہ کے نام کی نذر ونیاز وغیرہ کا حکم

  • 20659
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1829

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کسی مزار یا آستانے پر اللہ تعالیٰ کے نام کی دیگ پکا کر چڑھانا تقسیم کرنا جائز ودرست ہے؟قرآن وحدیث کی رو سے  جواب دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہر قسم کی عبادات صرف اور صرف اللہ وحدہ لاشریک کے لیے بجا لانی چاہیئں اور شرک سے مکمل  اجتناب کرنا چاہیے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿قُل إِنَّ صَلاتى وَنُسُكى وَمَحياىَ وَمَماتى لِلَّهِ رَبِّ العـٰلَمينَ ﴿١٦٢ لا شَريكَ لَهُ وَبِذ‌ٰلِكَ أُمِرتُ وَأَنا۠ أَوَّلُ المُسلِمينَ ﴿١٦٣﴾... سورةالانعام

(الانعام:163۔164)

"آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے (162) اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں "

اسی آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ عبادت صرف اور صرف اللہ وحدہ لا شریک کے لیے ہے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنانا چاہیے،نذر ونیاز منت ومنوتی،وذبح وغیرہ بھی اسی  کے لیےکیے جائیں۔غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ بھی حرام ہے اور ایسے ذبیحہ والا آدمی ملعون ہے۔سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لَعَنَ اللهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللهِ "

(مسلم (1978) باب تحریم الذبح لغیر اللہ تعالیٰ نسائی 7/232 باب من  ذبح لغیر اللہ)

"اللہ کی لعنت ہو اس آدمی پر جس نے غیر اللہ کے لیے ذبح کیا۔"

یعنی جو جانور غیر اللہ کے لیے ذبح کیاجائے وہ درست نہیں ایسا کرنے والا ملعون ہے۔

شاہ  عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔تفسیر نیشا پوری میں لکھا ہے کہ:

"قال العلماء  لو ان  مسلما ذبح  ذبيحة وقصد  بذبحة التقرب  الي غيرالله صار مرتدا او ذبيحته  مرتدّ انتهي "

(فتاویٰ عزیزی اردو ص 537)

"علماءکرام کا اس پر اجماع ہے کہ ذبح کیا کسی نے کوئی ذبیحہ اور رقصد کیا اس ذبح سے تقرب الی اللہ کاتو وہ شخص مُرتد ہوجائے گا اور اس کاذبیحہ مُرتد کے ذبیحہ کی مانند ہوجائے گا۔"

لہذا نذرونیاز ذبیحے اور چڑھاوے صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کے تقرب کی خاطر ہوں،ان میں ذرہ برابر بھی غیراللہ کی شراکت نہ ہو۔کیونکہ غیر اللہ کی شراکت سے ایسا سارا عمل رائیگاں ہوجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ مقامات جہاں پر غیر اللہ کی عبادت ہوتی ہے ۔جیسا کہ مزاروں اور آستانوں پر قبروں  کو سجدے کیے جاتے ہیں۔ان کے تقریب کے لیے جانور ذبح کیے جاتے ہیں۔وہاں پر اعتکاف بیٹھا جاتا ہے۔وغيرها من الخرافات ایسی جگہوں پر اللہ تعالیٰ کے نام کا چڑھاوا چڑھانا،دیگیں پکانا اور نذر ونیاز دینا ناجائز ہے۔اس کی دلیل وہ حدیث ہے جسے  ثابت بن الضحاک   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے بیان کیا ہے کہ:

"نَذَرَ رَجُلٌ أنْ يَنْحَرَ إبِلاً بِبُوَانَةَ، فَسأل النّبيّ -صلى الله عليه وسلم -فقالَ: هَلْ كَانَ فِيهَا وَثَنٌ مِنْ أوْثَانِ الْجَاهِلِيّةِ يُعْبَدُ؟ قالُوا: لاَ. قالَ: فهَلْ كَانَ فِيهَا عِيدٌ مِنْ أعْيَادِهِمْ؟ قالُوا: لاَ. فقالَ النّبيّ -صلى الله عليه وسلم -: أوْفِ بِنَذْرِكَ فَإنّهُ لاَ وَفَاءَ لِنِذْرٍ في مَعْصِيَةِ الله وَلاَ فِيمَا لاَ يَمْلِكُ ابنُ آدَمَ"

(کتاب التوحید ص 51 ابوداود کتاب الایمان والنذر باب ما یومر بہ من الوفاء بالنذر(3313)بیہقی 10/83) طبرانی)

"ایک آدمی نے نذر مانی کہ وہ بوانہ نامی مقام پر جاکر اونٹ ذبح کرے گا تو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کیا وہاں پر  جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی عبادت کی جاتی ہو؟تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نےکہانہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے دوبارہ پوچھا کیا وہاں پر مشرکین کے میلوں میں  سے کوئی میلہ لگتا تھا؟صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے فرمایا نہیں۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اپنی نذر کو پورا کرلے اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں نذر کا پورا کرنا درست نہیں اور نہ وہ نذر پوری کرنا صحیح ہے جو انسان کے بس  میں نہ ہو۔"

اس حدیث کی شرح میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  رقم طراز ہیں:

"یہ حدیث اس بات کی بین دلیل ہے کہ جس مقام پر مشرکین کا میلہ لگتا ہویا اس مقام پر ان کاکوئی  بت وغیرہ نصب ہواگرچہ  اس مقام پر اب نہ میلے کااہتمام ہوتا ہو اور نہ ہی بت نصب ہو تاہم اس مقام پر اللہ تعالیٰ کے لیے کسی جانور کو ذبح کرنا ممنوع ہے۔اور معصیت کے دائرے میں داخل ہے کیونکہ مشرکین کاکسی جگہ پر میلہ لگانا یاکسی مقام پر ان کا غیر اللہ کی عبادت کرنا خالص اللہ کے لیے ذبح کرنے اور نذر پوراکرنے کے لیے مانع اور رکاوٹ ہے۔"(ہدایۃ  المستفید 1/455)

اس بحث سے یہ نتیجہ نکلاکہ ایسے مقامات جہاں پر غیر اللہ کی عبادت کی جاتی ہو،عرس اور میلے لگتے ہوں،غیر اللہ کے تقرب کی خاطر جانورذبح کیے جاتے ہوں،اولاد طلب کی جاتی ہو،نذرونیاز،منت منوتی کی جاتی اور صاحب قبر ومزاور کو گنج بخش،فیض عالم،دست گیر،غریب  نواز،غوث اعظم،فریادرس ،بیڑے پار لگانے والے،مشکل کشا ،حاجت روا،کشتیاں پار لگانے  والا وغیرہ سمجھاجائے اوراسے اپنی حاجات کے لیے پکارا جائے اس کے نام پر عرس ومیلے لگائے جائیں وہاں پر اللہ کے نام کی نذر ونیاز،چڑھاوے اوردیگیں پکانا بھی شرعاً ناجائز ہے۔اور اللہ تعالیٰ کی معصیت ونافرمانی ہے۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسے آستانوں پر اگرپہلے میلے وعرس لگتے تھے،غیر اللہ کی عبادت ہوتی تھی اور اب وہاں ایسے اجتماعات نہیں ہیں تب بھی وہاں پر نذر وغیرہ  کاپورا کرنا منع ہے۔اللہ وحدہ لا شریک نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ذریعے ایسے تمام عقائد واعمال سے متنبہ فرمایا ہے جن میں شرک کا شائبہ تک بھی ہو۔کیونکہ شرک سے آدمی کے تمام اعمال ضائع،بے کار اور رائیگاں ہوجاتے ہیں۔

اس  لیے تمام مسلمانوں کو خواہ وہ مرد ہویاعورتیں،جوان ہوں یا بوڑھے،ایسے آستانوں،مزاروں اور شرک کے اڈوں سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے اور اپنے ایمان کی حفاظت کرنی چاہیے۔(مجلۃ الدعوۃ اگست 1999ء)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔العقائد و التاریخ۔صفحہ نمبر 53

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ