سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(301) ایک معاشرتی مسئلہ

  • 20562
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 888

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی دو بیٹوں کی شادی کر کے فوت ہو جا تاہے ، جبکہ باقی اولاد کے لیے اٹھنے والے اخراجات کی ضرورت ہو تی ہے ۔ اب کیا باقی اولاد کی ضروریات واخراجات منہا کر کے اس کی جائیداد تقسیم کی جائے ؟ قرآن و حدیث کے مطابق اس مسئلہ کا کیا حل ہے ، آخر باقی اولاد کی شادی وغیرہ کرنا پڑتی ہے ، وہ اخراجات کہاں سے پورے کیے جائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر احسان ہے کہ وہ اسے صاحب اولاد کر دے ، صاحب اولاد ہو نے کے بعد انسان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی ضروریات کا خیال رکھے اور انہیں کسی صورت میں ضائع نہ کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ’’انسان کو یہی گناہ کافی ہے کہ وہ جس کی کفالت کر تا ہے اسے ضائع کر دے۔‘‘[1]

اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے پاس ایک دینار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے اپنے آپ پر خرچ کر ، پھر عرض کیا، میرے پاس ایک دوسرا دینار بھی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اسے اپنے بچے پر خرچ کر۔ [2]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کوخصوصی نصیحت کر تے ہوئے فرمایا تھا :’’اپنے اہل و عیال پر اپنی آمدنی کے مطابق خرچ کر تے رہو، ان کی تر بیت کیلئے چھڑی تیار رکھو اور انہیں اللہ کے عذاب سے ڈراتے رہو۔ ‘‘[3]

ان احادیث سے معلوم ہو تا ہے کہ انسان کو اپنی اولاد کی ضروریات کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے، اس کے علاوہ ان میں عدل و انصاف کر نے کا بھی حکم ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’اللہ سے ڈرو اور اپنے بچوں میں عدل کرو۔‘‘[4]

جس بچے کو جتنی ضرورت ہے اسے پورا کرنا باپ کا اولین فرض ہے۔ ضروریات کو پورا کر نے میں مسا وات کو بر قرار رکھنا انتہائی مشکل ہے۔ کیونکہ ایک بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر تاہے تو اس کی ضروریات اور شیرخوار بچے کی ضروریات ایک جیسی نہیں ہیں، البتہ ضروریات کے علاوہ تحفے تحائف اور محبت و پیار میں عدل و انصاف اور مسا وات رکھنا ضروری ہے۔ ہر باپ اپنی زندگی میں اولاد کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے، ان کے کھانے پینے، لباس اور رہنے سہنے کا بند و بست کر تا ہے، اسی طرح ان کی شادی پر اٹھنے والے اخراجات بھی بر داشت کر تا ہے، اولاد بھی جو کچھ کماتی ہے وہ باپ کے حوالے کر دیتی ہے۔ اسی طرح مل جل کر زندگی کی گاڑی چلتی رہتی ہے لیکن جب والد فوت ہو جا تا ہے تو اس پر اولاد کی ضروریات کو پورا کر نے کی ذمہ داری بھی ختم ہو جا تی ہے اور اس کا ترکہ تمام اولاد اور شرعی ورثا کا مال بن جا تاہے۔ اس کے ترکہ سے انسان کی ذاتی ضروریات مثلاًکفن و دفن، قرض کی ادائیگی وغیرہ تو منہا کی جاسکتی ہے لیکن دوسری ضروریات کیلئے کچھ رقم الگ رکھ لینا شرعاًجائزنہیں ہے ۔ حتیٰ کہ اس کے مرنے کے بعد بچوں پر اٹھنے والے اخراجات بھی منہا کرنا جائز نہیں۔ ویسے تو ہمارے ہاں ایسا ہو تاہے کہ سر براہ خانہ کے فوت ہو نے کے بعد اسکا ترکہ اس کی بیوہ اور بال بچوں کا ہو تا ہے۔ اس لیے تقسیم کر نے کی نوبت نہیں آ تی بلکہ مشترکہ طور پر تمام ضروریات پوری کی جا تی ہیں لیکن اگر کوئی وارث (بیٹا یا بیٹی ) اپنا حصہ لینے کا تقاضا کر تا ہے تو اسے اس کا حصہ ضرور دینا چاہیے۔

صورت مسؤلہ میں ہمارا رجحان یہ ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد جو بچے غیر شادی شدہ ہیں، ان کے اخراجات ترکہ سے منہا کر نے کی چنداں ضرورت نہیں اور ایسا کرنا شرعاًجائز بھی نہیں ۔ چنانچہ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیوی، اپنی دو بچیوں کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ئی اور عرض کیا :’’یا رسول اللہ !ئی دونوں بچیاں سعد بن ربیع کی بیٹیاں ہیں اور ان کا باپ آپ کے ہمراہ غزوہ احد میں شہید ہو گیا ہے اور اس کےبھائی یعنی بیٹیوں کے چچا نے سعد کا سارا مال اپنے قبضہ میں لے لیا ہے جبکہ بیٹیوں کا نکاح مال کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا :اس کے متعلق اللہ ضرور کوئی فیصلہ کرے گا چنانچہ اس کے پس منظر میں آیت میراث نازل ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے چچا کی طرف پیغام بھیجا اور اسے فرمایا کہ سعد کی بیٹیوں کو ۳/۲ ، ان کی ماں کو ۸/۱  دو۔ اور جو باقی بچے وہ تیرا ہے ۔[5]

اس حدیث سے معلوم ہو تاہے کہ بیٹیوں کی شادی پر اخراجات ہو تے ہیں کیونکہ سعد کی بیوی نے کہا تھا کہ مال کے بغیر بچیوں کا نکاح نہیں ہو سکتا، چنانچہ ایک روایت میں ہے : سعد کی بیوی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !مال کے بغیر عورت کا نکاح نہیں ہوتا۔ ‘‘[6]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا انکار نہیں فرمایا ، یہ نہیں کہا کہ شادی پر خرچ کر نے کی ضرورت نہیں اور تم فی سبیل اللہ کسی سے ان کا نکاح کر دو، بلکہ آپ نے خاموش رہ کر اس کی تائید فرمائی۔

اس حدیث سے صورت مسؤلہ کا حل بھی معلوم ہو ا کہ بچوں کی شادی پر اٹھنے والے اخراجات ترکہ سے منہا نہیں کیے جائیں گے بلکہ ان کا پور ا حصہ نہیں دیا جائے گا۔ قرآن کریم میں بھی اس کا اشارہ ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بچے کو دودھ پلا نے کے اخراجات باپ کے ذمے ڈالے ہیں، اس ضمن میں فرمایا :’’وارث پر بھی اس جیسی ذمہ داری ہے۔’‘[7]

یعنی باپ کے فوت ہو جا نے کے بعد اخراجات بر داشت کر نے کی ذمہ داری اس کے وارثوں کی ہے اور یہ بچہ بھی ان وارثوں میں سے ہے ، اس لیے ترکہ سے اخراجات منہا نہیں کیے جائیں گے ۔ لہذا باپ اپنی زندگی میں اولاد کے اخراجات بر داشت کر نے کا پابند تھا، مرنے کے بعد دیگر شرعی پابندیوں کے ساتھ بچوں کی شادی پر اٹھنے والے اخراجات کی پابندی بھی اس سے اٹھا لی گئی ہے ، اس لیے تقدیر پر راضی رہتے ہوئے اس کے ترکہ کے ساتھ شریعت کے مطابق معاملہ کیا جائے، اس کے علاوہ کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے۔ (واللہ اعلم )


[1] ابو داؤد ، الزکوة :۱۶۹۲۔

[2] نسائی ، الزکوة :۲۵۳۶۔

[3] مسند امام احمد، ص ۲۳۹،ج۵۔

[4] صحیح البخاری، الھبة :۲۵۸۷۔

[5] ترمذی ، الفرائض:۲۰۹۲۔

[6] ابن ماجه ، الفرائض:۲۷۲۰۔

[7] البقرة:۲۳۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:278

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ