سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(268) تکافل کی شرعی حیثیت

  • 20529
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 6035

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ملک میں کچھ تجارتی کمپنیاں بیمہ کا متبادل تکافل کے نام سے متعارف کرا رہی ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ ہمارا نظام شرعی اصولوں کے عین مطابق ہے، اس سلسلہ میں علما کبار کے فتاویٰ کا بھی حوالہ دیا جا تا ہے، اس سلسلہ میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عربی زبان میں تکافل کا معنی کفالت کرنا اور ایک دوسرے کی خیر خواہی کرنا ہے۔ قرآن و حدیث میں اگرچہ یہ لفظ استعمال نہیں ہوا تاہم اسلام نے ہمیں ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھنے، خیر خواہی اور تعاون کر نے کی ترغیب دی ہے۔ چنانچہ زکوۃ، عشر، صدقہ فطر اور دیگر خیرات اسی امر کو یقینی بنانے کے لیے ہیں۔ اگر ہم صدق دل سے ان پر عمل پیرا ہو جائیں تو معاشرہ میں تمام محتاجوں کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں لیکن ہمارے ہاں جو تکافل کا نظام متعارف کروایا جا رہا ہے اس کا مقصد ضرورت مندوں اور محتاجوں کی مدد کرنا ہر گز نہیں بلکہ اس میں اپنے مستقبل کے خطرات کا تحفظ اور نقصانات کی تلافی ہے۔ اس نظام کے تحت یہ مطالبہ کیا جا تا ہےکہ ہم آپ کے بیوی بچوں کی مدد تب کریں گے جب آپ اتنے سالوں تک ہر ماہ ایک متعین رقم دیں گے اور ہمارے قائم کر دہ وقف فنڈ میں اتنی رقم بطور چندہ دیں گے اور اس نظام کو بیمہ کے متبادل کے طور پر پیش کیا جا تا ہے۔ اگرچہ اس تکافل اور عام بیمہ میں فرق ہے :مثلاً نظام تکافل میں شریک ہونے ولا جو بالاقساط رقم جمع کر تا ہے اس کی حیثیت عام صارف کی نہیں جیسا کہ بیمہ کرانے والےکی ہوتی ہے بلکہ وہ مجموعی رقم میں شریک بن جا تاہے۔ تکا فل میں جمع شدہ رقم پر جو منافع آ تا ہے اسے تمام شرکا ، شراکت کے تناسب سے تقسیم کر تے ہیں جبکہ بیمہ کمپنیاں ان منافع کو اپنے پاس رکھتی ہیں، صارف کو نہیں دیتیں۔ تکافل میں مدت پوری ہو نے کے بعد رقم واپس مل سکتی ہے جبکہ بیمہ کرانے والے کو اس کی جمع شدہ رقم پوری کی پوری واپس نہیں ہو تی ، اس کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ یہ بھی ایک تجارتی معاہدہ ہے ، اس کی بنیاد محض تعاون نہیں ہے جیسا کہ باور کرایا جا تاہے کیونکہ تعاون کی نیت سے اگر کوئی ادائیگی کر تا ہے تو وہ مال اس کی ملکیت سے نکل جا تا ہے، اس کی واپسی کا مطالبہ کرنا یا اس پر نفع طلب کرنا انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :اپنے دیئے گئے عطیے میں لوٹنے والا ایسے ہے جیسے ایک کتا قے کرے پھر اسے چاٹ لے۔ ‘‘[1]

 جبکہ تکافل میں مدت پوری ہو نے کے بعد اور کسی قسم کا نقصان نہ ہو نے کی صورت میں وہ اپنا مال واپس لے سکتا ہے ، ایسے حالات میں اسے تعاون کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ ہمارے رجحان کے مطابق تکافل میں غرر، سود اور جوا تینوں چیزیں موجود ہیں جن کی بنا پر اسے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

غرر اس طرح ہے کہ جس نقصان کے ازالہ کے لیے پالیسی ہولڈر نے پالیسی خریدی ہے وہ پیش ہی نہ آئے، اس طرح اس کی ادا کر دہ رقم ضائع ہو جائے اور یہ بھی احتما ل ہےکہ کوئی حادثہ پیش آ جائے پھر نقصان کی صورت میں اس کی تلافی کے لیے کمپنی کے ذمے اس کی ادائیگی لازم ہو جائے۔

تکافل میں شریک قسطیں ادا کر تاہے ، اگر اس کا نقصان ہو گیا تو تکافل کمپنی کی طرف سے اس کا طے شدہ معاوضہ دیاجا تا ہے جو ادا کر دہ قسطوں سے کہیں زیادہ ہو تاہے ، سود بھی اسی کا نام ہے کہ تبادلہ کی صورت میں ایک طرف سے زیادہ ادا کرنا، اسے ہم زیادتی کا سودکہتے ہیں۔

جو ااس طرح ہےکہ رقم جمع کرانے میں تمام افراد شریک ہیں لیکن ایک کو حادثہ پیش آتاہے تو تکافل کمپنی کی طرف سے اس کی تلافی کر دی جا تی ہے اور جس کو حادثہ پیش نہیں آتا اسے صرف اصل رقم ہی واپس ملتی ہے، یہ ایک طرح کا نقصان ہے اور جوا اسی کا نام ہے۔ اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ جن خرابیوں کی بنا پر بیمہ حرام ہے، موجودہ تکافل ان سے پاک نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں جن علماء کبار کے فتویٰ کا حوالہ دیا جا تاہے ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان کے سامنے جو صورت بیان کر کے فتویٰ لیا گیا ہے وہ موجود ہ تکافل سے قطعی مماثلت نہیں رکھتی۔ سعودی عرب کے علما کمیٹی نے اپنے حالیہ فتویٰ میں موجودہ تکافل کو حرام قرار دیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں :’’گزشتہ کچھ عرصہ سے کچھ اداروں اور کمپنیوں کی طرف سے لو گوں کے سامنے معاملات کو خلط ملط کر نے اور حقائق کو الٹ پلٹ کر نے کا سلسلہ جاری ہے ، ان اداروں نے تجارتی بیمہ کو تعاونی بیمہ (تکافل) کا نام دیا ہوا ہے اور لو گوں کو دھوکہ دہی پھر خود کو سہارا دینے کے لیے اس کے جواز کو علما کمیٹی کی طرف منسوب کر تے ہیں جب کہ علما کمیٹی اس سے مکمل طور پر بری ہے۔ ہم نے پہلے ہی تجارتی بیمہ اور تعاونی بیمہ (تکافل ) کے درمیان فرق کو واضح کر دیا ہے لہٰذا نام بدلنے سے حقیقت نہیں بدلتی ، اسی لیے علما کمیٹی نے حقائق کو ظاہر کر نے اور عوام کو اس دھوکہ سے خبر دار کر نے کے لیے یہ فتویٰ جاری کیا ہے۔[2]

خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے نزدیک تکافل ایک غیر شرعی تجارتی معاہدہ ہے جسے تعاون کا لبادہ پہنا کر عوام کو پھانسنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس میں موجود غیر شرعی اور حرام معاملات کو جائز کہا جا تا ہے ، ایسا کرناحرام کو حلال کہنے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراطِ مستقیم پر گامزن رہنے کی توفیق دے۔ آمین۔


[1] صحیح بخاری، الھدیه:۲۵۸۹۔

[2] فتاویٰ اللجنةالدائم نمبر ۱۹۴۰۶۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:249

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ